میں اندازہ نہیں کر رہا کہ دونوں میں سے کون سا واقعہ زیادہ توجہ طلب ہے۔ عمران خان کا یہ اعلان کہ ہم سی پیک کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں یا یہ خبر کہ شہباز شریف کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ میرے لیے دونوں خبریں تشویشناک تو ہیں ہی ‘ مگر ان کے پس منظر میں ایک سوال اور ابھرا ہے جسے میں اس خوف سے دل میں نہیں رکھنا چاہتا کہ کہیں مجھ پر تعصب کا الزام نہ لگ جائے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آیا پنجاب کا اس وقت کوئی والی وارث ہے یا نہیں۔ آپ سمجھیں گے یہ کیا سوال ہے۔ میں عرض کرتا ہوں یہ بہت اہم سوال ہے اور پاکستان کی سلامتی اور بقا کا انحصار اس سوال کے جواب میں ہے۔ مجھے اندازہ ہے اس طرح میں اپنی بحث کو محدود کر لوں گا۔ مگر پاکستان کا مستقبل اس سے وابستہ ہے ۔ویسے تو یہ تینوں الگ الگ موضوعات بھی ہیں‘ مگر ان میں ایک باہمی ربط بھی ہے۔ پہلے سوال کو لے لیجیے۔ نئی حکومت آتے ہی یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ یہ حکومت سی پیک کے ساتھ کچھ کرنے والی ہے۔ اس پس منظر میں بار بار اپنی تشویش کا اظہار کرتا آیا ہوں۔ مجھے بتائیے رزاق دائود نامی ایک مشیر سرکار کے حوالے سے جو مغالطہ شروع ہوا تھا اس میں اور عمران خان کے اس بیان میں کیا فرق ہے۔ حکومت بار بار تردید کرتی ہے کہ ہم سی پیک کی پشت پر ہیں اور اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔ رزاق دائود نے اپنے بیان کی تردید بھی کر دی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ میرے جیسے مبتدی بار بار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ امریکی لابی پاکستان پر ہمیشہ کی طرح حاوی ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک نہیں کئی بیانات سامنے آئے۔ لگتا تھا کہ حکومت باور کرانا چاہتی ہے کہ سابقہ حکومت نے سی پیک کے نام پر بہت گھپلے کئے ہیں۔ اب ان کا تدارک کیا جائے گا۔ ایک واضح نکتہ نظر یہ تھا کہ سی پیک صرف ایک منصوبہ ہی نہیں‘ اس کے پیچھے صرف سرمایہ کاری کا ایجنڈا ہی نہیں‘ بلکہ اس سے جڑی علاقے کی حکمت عملی ہے یہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی پیدائش ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ ہم ایسے جی دار نہیں کہ اس حکمت عملی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں۔ ہمارے فیصلہ ساز ادارے اس بات کی طرف بار بار اشارہ کر رہے تھے کہ لگتا تھا ہم پرانے ورلڈ آرڈر سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس پر میں کئی بار گزارشات کر چکا ہوں۔ صاف صاف کہتا آیا ہوں کہ اس کے ہم پر کیا کیا اثرات پڑیں گے۔ اس بار مجھے اس بات کو با اندازدیگر عرض کرنا ہے۔ آخر عمران خان نے بلوچستان کے دورے کے موقع پر یہ اعلان کیوں کیا۔ صاف ظاہر ہے ۔ یہ بتانا مقصود تھا کہ چھوٹے صوبوں کو اگر سی پیک سے کوئی شکایت تھی‘ تو اسے دور کیا جائے گا۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق کے نام پر سارا ملبہ پنجاب پر گرتا آیا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہیے۔ دیکھنا چاہیے کہ آیا یہ بات درست ہے کہ پنجاب نے دوسروں کا استحصال کیا ہے یا اس سے زیادتی ہوتی آئی ہے۔ اس بار بھی سی پیک کے حوالے سے مغربی روٹ‘ مشرقی روٹ میں بہت ساری رنجش تھیں۔ اور بہت سے معاملات تھے۔ سارے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بیجنگ لے جا کر مطمئن کیا گیا۔ لگتا ہے اب ہم کچھ ایسا کرنے جا رہے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ سی پیک کا زیادہ فائدہ پنجاب کو پہنچ رہا تھا۔ اب دوسرے صوبوں کی باری ہے۔ شاید اس حکمت عملی کا سب سے بڑا نقصان بظاہر پنجاب کو پہنچے۔ سی پیک کے سب سے بڑے حامی شہباز شریف رہے ہیں۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس وقت پنجاب کی نمائندگی کس کے پاس ہے۔ کوئی ہے جو اس کی خبر دے۔ بہت سے کام ایسے ہو رہے تھے جن کا ملک کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ اب کیا پنجاب کی آڑ میں انہیں موخر کر دیا جائے گا۔ سی پیک کی مجوزہ اور مبینہ سست رفتاری کا نقصان پنجاب کو پہنچے گا۔ ہم نئی منصوبہ سازی میں لگ جائیں گے اور یہ اعلان کرتے پھریں گے کہ ہم سی پیک کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ اس جائزہ میں کم از کم دوسال گزر جائیں گے۔ اس کا اصل نقصان پورے پاکستان کو پہنچے گا۔ موٹر وے جو ایک طرف کراچی سے حیدر آباد کو چھو رہی ہے۔ دوسری طرف ملتان سے سکھر کا رخ کر رہی ہے۔ اس باقی خلا کو پر کر کے سکھر کو حیدر آباد سے ملا کر پورے ملک کو ایک شاہراہ سے منسلک کرنا تھا کیا یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوں گے۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو ہوا چاہتی ہیں۔ یہ امریکی لابی کی خواہش ہے۔ کیا ہم یہ ہونے دیں گے۔ یہ جو میں نے پنجاب کا ذکر کیا‘ تو سب اس لیے کہا کہ اس وقت پنجاب کا والی وارث کوئی نہیں ہے۔ یہاں اس وقت جو قیادت ہے‘ اس کی مہار کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی نہیں جو پنجاب کا مقدمہ لڑ سکے۔ ایک زمانے میں چودھری برادران تھے‘ وہ اب حکومت کا حصہ ہیں۔ اب انہیں مصلحتوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ چودھری سرور تو اب تک صرف باتیں ہی کرتے رہے ہیں ان سے زیادہ کی توقع نہ رکھیں۔ رہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ تو آیا وہ پنجاب کی آواز بن سکیں گے۔ مجھے خوف آتا ہے۔ اس بار سی پیک پنجاب میں سبوتاژ ہو گا اور کوئی اس پر آواز اٹھانے والا نہیں ہو گا۔ ہم نے ماضی میں اس حوالے سے سب سے زیادہ نقصان اٹھائے ہیں۔ اگرچہ ان نقصانات میں پنجاب کی قیادت برابر کی شریک رہی ہے۔ شروع کروں تو کم از کم ون یونٹ سے شروع کرنا پڑے گا۔ تاہم ان وقتوں میں پنجاب کا کوئی والی وارث ہوا کرتا تھا۔ ہم طعنہ دیتے ہیں کہ پنجاب پر گزشتہ کئی برس سے ایک ہی خاندان مسلط ہے۔ اب مگر جو بندوبست کیا گیا ہے۔ اس میں پنجاب کا نکتہ نظر بیان کرتا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ شہباز شریف کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ سی پیک کے سب سے بڑا حامی تھے۔ پھر وہ آواز اٹھاتے تو اس کا اثر بھی ملک کے اس سب سے بڑے صوبے پر پڑتا۔ اب کوئی نہیں جو یہ آواز اٹھا سکے۔ اب جو ہونے والا ہے‘ اس کا خمیازہ صرف پنجاب کو نہیں بھگتنا۔ کیا کالا باغ ڈیم نہ بننے کا نقصان صرف پنجاب کو ہوا یا پاکستان کو۔ یہ الگ بات ہے کہ صرف پنجاب واحد صوبہ تھا جو کالا باغ کا حامی رہ گیا تھا اور اس نے آواز بھی اس لیے دبا رکھی تھی کہ ملک کا اتحاد باقی رہے۔ اب اس طرح کا اتحاد باقی رکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔ لیکن یاد رکھیے‘ پاکستان میں ترقی کا کوئی راستہ نہیں ہے جو پنجاب سے ہو کر نہیں گزرتا۔ آپ سوچیں گے‘ یہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میری تشویش بے جا نہیں ہے۔ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے زمانے میں یہ خبریں آنے لگیں کہ واہگہ کا بارڈر کھول دیا جائے تو اس سے ہندوستان ہی کا نہیں پاکستان کا بھی فائدہ ہو گا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہا گیا کہ ہمارے ہاں بجلی کی کمی کو بھارت سے بجلی لے کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری تجویز یہ آئی کہ ہندوستان سے گیس بھی مل سکتی ہے حالانکہ وہاں گیس کی کمی تھی۔ کہا گیا‘ بھارت گیس تو باہر سے بھی منگوا لے گا۔ امرتسر کے قریب ایک ٹرمینل تعمیر کرنا ہو گا ‘وہاں سے یہ گیس پاکستان منتقل کی جائے گی۔ یہ ویسا ہی ٹرمینل ہے جو قطرسے گیس لینے کے لیے کراچی کے قریب کہیں پورٹ قاسم پر تعمیر کیا گیا۔ تصور کیجیے ‘ یہ سب منصوبے کیا تھے۔ میں نے ان دنوں آواز اٹھائی۔ اگر پاکستان اپنے سمندر کے راستے گیس نہ لے سکے گا۔ یا اپنے گیس فیلڈ اس کے لیے ممنوع قرار دیے جائیں گے تو پھر یہاں گریٹر پنجاب کی آوازیں اٹھ سکتی ہے۔ سارے وہ بندوبست جو ہندوستان اور پاکستان کی سرحد بھی ختم کر دیں۔ یہاں یہ بتایا جائے گاکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ پنجاب کو ہو گا۔ کیا ضرورت ہے موٹر وے کو کراچی تک لے جانے کی۔ اسے صرف لاہور سے واہگہ بارڈر تک لے جائیے۔ کھلے عام تجارت ہونے لگے گی۔ ٹماٹر‘ لہسن ادرک جیسی اشیاء سرحد پار سے آنے لگیں۔ مجھے یہ تشویش تھی کہ اگر ہمارے صوبے حقیقت میں ایک دوسرے سے منسلک نہ رکھے جائیں گے تو اس کا نقصان قومی یکجہتی سے ہو گا۔ ہم لاہور میں کھڑے واہگہ بارڈر کے پار دیکھنے لگیں گے۔ ذرا تصور کیجیے ‘ ممبئی سے گیس بھارت آئے وہاں امرتسر تک پہنچے جہاں ٹرمینل تعمیر کیا جائے تاکہ یہ گیس پاکستان جا سکے۔ یہ بھی بتایا گیا اس گیس سے بھارت میں بھی سستی بجلی بھی پیدا کی جائے گی۔ صرف ٹرانسمیشن لائن بچھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب پاکستان توڑنے کے نقشے تھے۔ ہو گا یہ آزاد معیشت کے نام پر۔ ذرا تصور کیجیے۔ بھارت کو کیا پڑی ہے کہ جو شے ان کے اپنے ہاں کم یا ناپید ہے اسے باہر سے منگوا کر اور نئی سہولتیں لگا کر پاکستان کو فراہم کرے۔ ذرا بتائیے گا ہمارا حافظہ ذرا کمزور ہے۔ ان دنوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ہمارے وزراء کے بھارت آنے جانے کے شیڈول دیکھتے جائیے۔ ان دنوں تو یہ بھی خبریں تھیں کہ لاہور کے قریب سرحد کے ساتھ ساتھ گوداموں کے لیے بہت سی زمینیں بھارتیوں نے پراکسی کے ذریعے خریدی ہیں۔ پنجاب کو تنہا کرنے کا یہ نقصان مجھے ان دنوں سمجھ آیا تھا۔ آپ کو یہ نقشہ قبول نہیں تو پھر سی پیک کو اس طرح چلنے دیجیے جس سے کسی صوبے کو تنہائی کا خیال نہ آئے۔ یہ درست ہے کہ اقلیتوں کے حقوق ہیں‘مگر یہ بھی یاد رکھیے کہ اکثریت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ ہر صوبے کی سرحد پر ایسے حالات ہیں کہ سرحد پار دیکھنے سے ساری حکمت عملی بدل سکتی ہے۔ اگر خیبر پختونخواہ ‘ افغانستان کی طرف دیکھیے۔ بلوچستان ‘ ایران سے امیدیں لگائے۔ پنجاب کو بھارت بھلا لگنے لگے۔ اور سندھ سمندری راستوں کا محافظ بن بیٹھے‘ تو اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ ملک میں کیا صورت حال پیدا ہو گی۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں جب خیبر پختونخواہ کی معیشت کراچی اور پنجاب سے منسلک ہو تو پختونستان کا مسٹر شوشہ دم توڑ گیا۔ میری بات کو غور سے سنئے‘ پنجاب کو بلا قیادت نہ چھوڑیے اس سے بہت بڑی خرابی ہو گی۔ پہلے چھوٹے صوبوں میں ملک کی سالمیت کے بیج بوئے جاتے تھے۔ اب بڑے صوبے کواس مقصد کے لیے استعمال کرنے کا امکان ہے۔ خدا کرے میری بات کسی کو سمجھ آ جائے۔