پچھلے کالم کے اختتام پر لکھا تھا کہ ’’عزیزو ،برسوں پہلے ڈاکٹر جانسن کا یہ مقولہ سُنا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ’’جو زندگی سے بیزا ر ہو، وہ لندن آجائے۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر کسی نے یہ جملہ دیا کہ ۔ ۔ ۔ ’’اوراگر کوئی لندن سے بیزار ہو جائے تو؟‘‘ ۔ ۔ ۔ جواب آیا۔ ۔ ۔ ’’ تواس کا مطلب وہ زندگی سے بیزار ہے۔‘‘ سو پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ۔ ۔ کہ اسکرین سے پیٹ لگنے کے سبب جو وطنِ عزیز میں شب و روز سیاست میں گذرتے ہیں ۔ ۔۔ اُس سے بیزار ہو کر ذرا فقط ’’فیض ؔ میلہ‘‘ میں شرکت کے بہانے وطن چھوڑ کر لندن کے پارکوں اور ’پبوں‘ میں یاران ِ عزیز کی محفل ِ ہاؤ ہو میں ۔ ۔ ۔ پیروی ،رند ِخرابات میں ، زہرہ جبینوں کی مناجاتیں ہوں گی۔ ۔ ۔ مگر اِدھر ابھی جم کر بیٹھے نہیں کہ ۔ ۔ ۔ وہی کمبل بنا ’’سوال‘‘۔ ۔۔۔ کہ : ’’حکومت کب جا رہی ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’میاں صاحب کی صحت کیسی ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’مولانا کے لانگ مارچ کے پیچھے کون ہے؟‘‘ ۔ ۔ ۔ ہائے لندن، وائے لندن بھاڑ میں جائے لندن‘‘ استاد ِ صحافت محترم نثار عثمانی کہا کرتے تھے کہ ۔ ۔ ۔ اُس جگہ کی خبر نہ دو جب تک خود اپنی آنکھ سے اُس جگہ کا مشاہدہ نہ کرو۔لندن میں جن پاکستانیوں کے درمیان ہوں، اُن کی ساری نظریں برطانیہ میں ہونے والے 12دسمبر کے انتخابات پہ نہیں بلکہ حضرت مولانا کے مارچ پر ہیں جس کے بارے میں جمعیت کی قائم کردہ رہبر کمیٹی کے ترجمان سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی کا یہ بیان دیکھا اور سنا کہ آزادی مارچ کے شرکاء وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے بعد ہی گھر واپس لوٹیں گے۔کہ سواری راشن سمیت مہینے بھر کے انتظام کے ساتھ اسلام آباد آرہے ہیں۔ان سطور کے لکھتے وقت میں ’’خلا ‘‘میں ہوں۔یعنی لندن،قطر کے بیچ ۔انٹرنیٹ اور فیس بک کے لوازمات والا موبائل فون رکھنے کی علت نہیں۔اس لئے بے خبر ہوں کہ حضرت مولانا کے مارچ پر کیا گزر رہی ہے۔اس لئے ذرا، لندن میں گزارے چار دن کی سن لیں۔ گزشتہ کالم میں یہ اطلاع تو دے ہی چکا تھا کہ لندن آمد کا سبب 26 اکتوبر کو ’’فیضؔ میلہ‘‘ ہے اور 27اکتوبر کو اپنی عزیز دوست اور شاعرہ فہمیدہ ریاض کا تعزیتی ریفرنس تھا۔پھر برسوں سے بچھڑے یاران ِ عزیز کی صحبتیں بھی مجبور کرتی ہیں کہ مزید دو تین دن گزارے جائیں۔کراچی پریس کلب سے خبریں آرہی ہیں کہ شہر کی عندلیبیں آہ و زاریاں کر رہی ہیںکہ یہ کیسے کمٹڈ صحافی ہیں کہ وطن ِ عزیز کی تاریخ کے ہنگامہ خیز دنوں کو چھوڑ کر لندن سیر سپاٹے کے لئے نکل پڑے۔سب سے پہلے تو اے عزیزو! عمر کے اس پہر میں یہ بات گرہ سے باندھ لی ہے کہ فیض ؔ صاحب کی زبان میں ’’جو اپنی کرنی کر گزرو‘‘کے الزام و دشنام کی سنگ زنی تو ساری وضاحتوں کے بعد بھی جاری رہے گی۔پھر دوسرے 70کی دہائی سے وطن عزیز میں ہونے والی ہر سیاسی تبدیلی کو چشم دید کی حیثیت سے دیکھا بھی اور ایک صحافی کی حیثیت سے اس پر لکھا اور بولا بھی۔جنرل ضیاء الحق کا 5جولائی کا مارشل لاء ۔ ۔ ۔ بھٹو صاحب کی پھانسی۔ ۔ ۔ شریفوں ،زرداریوں کی حکومتوں کا آنا جانا۔ ۔ ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ۔ ۔ ۔ اور پھر بڑی شان و شوکت سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا اقتدار میں آنا اور پھر بڑی رسوائی سے رخصت ہونا۔۔ ۔ اور پھر اپنے الطاف بھائی کو تو بھول ہی گیا۔۔ ۔ کہ تین دہائی کے سیاسی عروج کے بعد ایسا زوال آیا کہ بھائی کی آواز اور تصویر کو اسکرینوں پہ دیکھے آنکھیں ترستیا ں ہیں۔۔ ۔ اس کے بعد کیا حضرت مولانا کا مارچ کہ تبدیلی لانے والے خان صاحب کی حکومت اس مارچ کے دبا ؤ سے رخصت بھی ہوجائے تو معذرت کے ساتھ اس نا چیز کے لئے تو اتنی بڑی خبر نہیں کہ لندن جیسے شہر کا سفر اور وہ بھی میں چھوڑ دوں ۔ہئے ،ہئے اس ’’چھوڑدوں ‘‘ پھر مصطفی زیدی ہی یا د آئے: کرسی کے واسطے ٹھوکر کو چھوڑدوں دفتر کے واسطے میخانہ چھوڑ دوں اب ذرا یہاں کی ،یعنی ،برطانیہ کی سیاست کا سنیں۔ ۔ ۔ کہ گزشتہ دو سال سے Brexitسارے گوروں اور اُس سے زیادہ حکمراں کنزرویٹواور اپوزیشن لیبر پارٹی کے سرخیلوں کے لئے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔گوروں کی اکثریت تو ریفرنڈم میں فیصلہ دے چکی ہے کہ وہ کسی صورت یورپی یونین کا حصہ نہیں بنیں گے۔اور پھر گوروں کے اس فیصلے ہی کے سبب وزیر اعظم تھریسا مے اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں۔یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ ڈھائی سال پہلے ہونے والے الیکشن کی کوریج کے لئے اپنے اُس وقت کے چینل کی طرف سے آیا ہوا تھا۔ الیکشن کا سارا دن ہنگامہ دیکھا اور پھر رات کے آخری پہر میں ایگزٹ پول سے یہ نتیجہ بھی سنا کہ لیبر پارٹی نے اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود اتنی نشستیں حاصل کرلی ہیںکہ کنزرویٹو وزیر اعظم تھریسا مے کی حکومت کو مانگے تانگے کے ووٹوں سے حکومت بنانی پڑے گی۔ مانگے تانگے کے ووٹوں سے حکومت چاہے مادرِ جمہوریت برطانیہ میں بنے یا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ۔ ۔ ۔ چلتی تو ہے مگر ڈولتی ،لڑکھڑاتی ۔اُسے گرانے کے لئے محض ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔وزیراعظم مے بڑی مشکل سے سال دو نکال سکیں۔اور پھر موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن تو اپنی حکومت کا چالیسواں بھی مکمل نہ کرسکے۔اور اب بیچ کرسمس بارہ دسمبر کے انتخابات نے سارے لندن کو ہلایا ہوا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اس پر بڑی بحث ہوئی کہ کرسمس کے دنوں میں جس کا آغاز دسمبر کے پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے ،آخر الیکشن کے بکھیڑے کی کیا ضرورت تھی۔۔ ۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ میں کئی الیکشن دیکھے ۔گوروں کی دلچسپی ’’ٹیبلائڈز‘‘ اور اسکرینوں پر ہونے والے مباحثوں کی حد تک ہوتی ہے۔سڑکوں پر نہ کوئی بینر اور ریلیاں ۔ ۔ ۔ اور نہ ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے دھرنا۔ ۔ ۔ یہاں تک پہنچا ہوںتو دوہا سے نیند نے آلیا ہے۔آنکھ جمعے کی صبح صادق کے وقت کراچی میں کھلتی ہے۔سب سے پہلے اسکرینوں اور اخباروں کی شہ سرخیوں پر اُس بھیانک حادثے کی خبر پر نظر جم جاتی ہے جس پر ٹرین کے ایک حادثے میں سو سے اوپر مسافروں کی ہلاکت اور اُس سے بھی زیادہ زخمیوں کی خبر دہلا کر رکھ دیتی ہے۔اُس پر وزیر ریلوے شیخ رشید کا یہ بیان کہ حکومت اور نہ اُن کی وزارت اس کی ذمہ دار ہے۔ ۔ ۔ مہذ ب ملکوں میں کیا،دشمن ملک بھارت میں بھی جب ریلوے کا اتنا بڑاحادثہ ہوا تووزیر ریلوے نے سب سے پہلے استعفیٰ پیش کیا اور پھر فوری طور پر ایک جج کی نگرانی میں انکوائری کمیٹی ۔ ۔ ۔ یہ لیجئے ،لندن کے سات دن تمام ہوئے ۔ ۔ ۔ اور پھر سے اپنے وطن عزیز میں وہی حادثات ،سانحات ، حکمرانوں کی بے حسی۔ ۔ ۔ رہا حضرت مولانا کا مارچ۔ ۔۔ تو ابتداء میں ہی لکھا تھا کہ ہمارے صحافتی استاد کہا کرتے تھے کہ جہاں خبر ہو ،سب سے پہلے وہاں پہنچو۔سو ،اگلا کالم اسلام آباد سے ،جہاں اُس وقت تک حضرت مولانا کا مارچ،دھرنا دئیے بیٹھا ہوگا۔اب یہ الگ بات ہے کہ اس دوران یا تو حکومت حضرت مولانا کے مارچ کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے یا پھر ان کاآزادی مارچ شاہراہِ دستور سے گذرتا ایوان ِ اقتدار کے دروازوں پہ دستک دے رہا ہو۔