نواسۂ بھٹو بلاول بھٹو زرداری نے 9 اکتوبر کو اپنے نانا ،پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت میں فریق بننے کے لئے جناب فاروق۔ ایچ ۔ نائیک ، ایڈووکیٹ کی وساطت سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردِی ہے۔ بھٹو صاحب کو قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل میں بڑے ملزم کی حیثیت سے سپریم کورٹ نے موت کی سزا سُنائی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے (اُن دنوں ) صدرِ پاکستان جنرل ضیاء اُلحق سے بھٹو صاحب کی سزا معاف کرنے کے لئے رحم کی اپیل کی ، جو مسترد کردِی گئی ، پھر 4 اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پھانسی دے دِی گئی تھی۔

معزز قارئین!۔ قبل ازیں 30 نومبر 1967ء کو بھٹو صاحب نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو پارٹی کے چار راہنما اصولوں میں سے ایک راہنما ؔ اصول تھا کہ ’’ جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ لیکن، بھٹو صاحب اور اُن کے سیاسی وُرثاء نے پارٹی میں انتخابات کرانے سے گریز کِیا۔ بھٹو صاحب نے صِرف ایک بار پارٹی کے شعبہؔ خواتین کی صدر بیگم نصرت بھٹو کی نگرانی میں اپریل 1976ء میں چاروں صوبوں کے اضلاع شہروں اور تحصیلوں سے خواتین صدور اور اور سیکرٹریز جنرلز کے انتخابات کرائے ۔ پھر اُن منتخب صدور اور سیکرٹریز جنرلز نے چاروں صوبوں کی صدور اور سیکرٹریز جنرلز کو منتخب کِیا۔ پنجاب میں اضلاع ، شہروں اور تحصیلوں کی 225 منتخب صدور اور سیکرٹریز جنرلز نے 26 اپریل 1976ء کو ٹائون ہال لاہور میں ملتان کی بیگم نادر خان خاکوانی کو ، صدر اور میری مرحومہ اہلیہ بیگم نجمہ اثر چوہان کو سیکرٹری جنرل منتخب کرلِیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کی بڑی بہن محترمہ آئمہ حسن، رکن پنجاب اسمبلی بیگم ریحانہ سرور ،ہار گئی تھیں اور سیکرٹری جنرل کے عہدے کی امیدوار ( بیگم نصرت بھٹو کی سیکرٹری عابدہ کھوکھر کی بڑی بہن ) رکن پنجاب اسمبلی ناصرہ کھوکھر اور عیسائی خاتون وکیل "Mis Agnes Frances" کو بیگم نجمہ اثر چوہان نے 115 ووٹ لے کر ہرا دِیا تھا۔ مِس ناصرہ کھوکھر نے 72اور خاتون وکیل نے صرف 34 ووٹ حاصل کئے تھے ۔

معزز قارئین!۔ پنجاب پیپلز پارٹی کی صدر اور سیکرٹری جنرل کے انتخابات سے قبل لاہور صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر 6 کے ضمنی انتخاب میں ، سابق گورنر / وزیراعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کو ہرانے والے ، رکن پنجاب اسمبلی جناب شیر محمد بھٹی (مرحوم) ، میاں ریاض احمد ۔ ایم ۔پی ۔ اے اور پیپلز پارٹی کے طالبعلم راہنما شریف میتلاؔ میرے گھر آئے ۔ مَیں نے اُنہیں چائے پلوائی۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ ’’اثرچوہان صاحب! ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا حکم ہے کہ آپ اپنی بیگم صاحبہ کو انتخاب سے دستبردار کرالیں ، ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ مِس ناصرہ کھوکھر بلا مقابلہ پنجاب پیپلز پارٹی ( شعبہ خواتین) کی سیکرٹری جنرل منتخب ہو جائیں!‘‘۔

مَیں نے کہا کہ ’’ مَیں پاکستان پیپلز پارٹی کے "Discipline" میں نہیں ہُوں۔ مَیں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا حکم نہیں مان سکتا۔ آپ لوگ تشریف لے جائیں ‘‘ پھر وہ ، چلے گئے ۔ اُسی شام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثرنیازی میرے گھر آئے مَیں نے مولانا صاحب کو بھی چائے پلائے بغیر رخصت کردِیا۔دو دِن بعد بیگم نصرت بھٹو ، گورنر ہائوس لاہور میں تھیں۔ اُنہوں نے بیگم نجمہ اثر چوہان کو وہاں بلوا کر کہا کہ ’’ آپ کے صحافی شوہر اثر چوہان ، پیپلز پارٹی کے باغیوں غلام مصطفی کھر اور حنیف رامے کی حمایت کر رہے ہیں ،اِس لئے آپ کا انتخاب میں حصّہ لینا مناسب نہیں ہوگا !‘‘۔ نجمہ نے کہا کہ ’’ محترمہ بیگم صاحبہ!۔ آپ میرے شوہر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع کیوں نہیں دیتیں ؟‘‘۔ بیگم نصرت بھٹو راضی ہوگئیں۔ دوسرے روز مَیں اور بیگم نجمہ اثر چوہان وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں خاتونِ اوّل پاکستان کے دفتر میں تھے۔

وہاں مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ بیگم صاحبہ! کل آپ لاہور میں تھیں اور مَیں بھی ۔مجھے ’’ نوائے وقت‘‘ اور کئی دوسرے اخبارات سے متعلق میرے دوست صحافیوں نے بتایا کہ ’’ بیگم نصرت بھٹو آپ پر دبائو ڈالنے کے لئے آپ کو اسلام آباد طلب کریں گی!‘‘۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’ بھلا ’’ فخر ایشیا ‘‘ اور ’’قائدِ عوام ‘‘ کہلانے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قابل احترام اہلیہ ’’خاتون اوّل ‘‘ پاکستان مجھ پر دبائو کیوں ڈالیں گی؟ ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ خاتونِ اوّل ‘‘ میری بیگم کو انتخاب سے دستبردار کرا کے پاکستان پیپلز پارٹی کو بدنام نہیں ہونے دیں گی؟ ‘‘۔ اِس پر بیگم صاحبہ نے چند لمحے کے لئے سوچا ۔ پھر مسکراتے ہُوئے میری اہلیہ سے کہاکہ ’’ٹھیک ہے نجمہ! ۔ مَیں اپنی پارٹی کو بدنام ؔنہیں ہونے دوں گی۔  آپ انتخاب لڑیںگی !‘‘۔ 

معزز قارئین! پھر کیا ہُوا؟۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ مِس ناصرہ کھوکھر کو پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 12 مخصوص نشستوں میں سے ایک نشست پر منتخب کرادِیا لیکن، بیگم نجمہ اثر چوہان کو اسمبلی سے باہر رکھا۔ نجمہ نے پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ دِی اور سیاست بھی۔ پھر عجیب اِتفاق ہُوا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں اُن کے میڈیا ایڈوائزر ، سیّد حسین حقانی نے مجھے وزیراعظم سے ملوایا ۔ وہ مجھے عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر لے گئیں ۔ وہاں بیجنگ ہوٹل میں مرحوم صحافی مُنو بھائی ، پیپلز پارٹی کے دانشور بشیر ریاض کو ساتھ لے کر میری "Table" پر آئے اور کہا کہ ’’ اثر چوہان!۔ تُْم نے اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بہت کچھ لِکھا ، اب تمہیں اُن کی بیٹی کے ساتھ دورۂ چین پر آتے ہُوئے شرم نہیں آئی؟‘‘۔

مَیں نے کہا کہ ’’ مُنو بھائی!۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے میرے والد صاحب کے خلاف کچھ لِکھا یا بولا ہوتا تو مجھے واقعی شرم آنا چاہیے تھی ، آپ محترمہ وزیراعظم سے بات کریں!‘‘۔ 3 اگست 2008ء کو سعودی عرب میں مقیم میری بیٹی سائرہ قاسم مرزا کے گھر آگ لگ گئی ۔ اُس کا سارا جسم جھلس گیا ۔ میرے داماد قاسم احمد مرزا نے ، اُس کا سعودی عرب اور اسلام آباد میں علاج کرایا۔ اُن دِنوں انفارمیشن گروپ میں میرے محسن اوّل وفاقی سیکرٹری صحت سیّد انور محمود نے بھی کافی شفقت کی۔ سائرہ تو مکمل صحت یاب ہوگئی لیکن ،نجمہ اثر چوہان 11 اکتوبر 2008ء کو انتقال کر گئیں۔ آصف علی زرداری صدرِ پاکستان تھے ۔ شام کو مجھے الیکٹرانک میڈیا پر اُن کا یہ بیان سُن کر حیرت ہُوئی کہ ’’ مجھے بیگم نجمہ اثر چوہان کے انتقال پر بہت افسوس ہُوا ہے ۔ مرحومہ نے پیپلز پارٹی کی بہت خدمت کی تھی!‘‘۔

 دوسرے دِن مَیں نے اپنے ’’ سیاست نامہ‘‘ میں لِکھا کہ ’’ دامادِ بھٹو‘‘ کو اپنے ’’ روحانی والد‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی تاریخ کا عِلم ہی نہیں ۔ بیگم نجمہ اثر چوہان نے تو، 1976ء کے وسط ہی میں پارٹی چھوڑ دِی تھی؟‘‘۔ معزز قارئین! بھٹو صاحب کی غیر فطری موت کے بعد اُن کے دونوں بیٹے ۔ شاہنواز بھٹو ، میر مرتضیٰ بھٹو اور وزیراعظم بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو غیر فطری موت کا شکار ہُوئے تو، مجھے بھٹو خاندان پر بہت تر س آیا ۔ آصف زرداری صاحب سے ،محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی بھٹو صاحب کے بعد 18 دسمبر 1987ء کو ہُوئی اور زرداری صاحب "Bhutto Izm" کے صدقے صدرِ پاکستان بھی رہے۔ میری دُعا ہے کہ اب بھٹو صاحب کے نام سے سیاست کرنے والا کوئی بھی "Leader"غیر فطری موت نہ مرے!۔ 

نجمہ کی قبر اسلام آباد میں ہے ۔ قبر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ میری بیٹی عاصمہ ، اُس کے شوہر معظم ریاض چودھری اور بیٹے علی امام پر ہے ۔ دبئی سے میرا بیٹا شہباز علی چوہان ، اُس کی بیگم عنبرین چوہان اور سعودی عرب سے آ کر میری بیٹی سائرہ ، داماد قاسم احمد مرزا اور اُن کا بیٹا جبرائیل احمد مرزا مختلف اوقات میں حاضری دیتے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ آج میری اہلیہ ’’پنجاب پیپلز پارٹی ‘‘ کی پہلی اور آخری منتخب سیکرٹری جنرل بیگم نجمہ اثر چوہان کی 10 ویں برسی ہے ۔ مَیں اپنے آج کے کالم میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کوئی مقدمہ (استغاثہ ) دائر نہیں کر رہا ۔ مَیں نے تو اُنہیں معاف کردِیا ہے ۔ البتہ میری خُود نوشت میں یہ مقدمہ ( دیباچہ) کے طور پر تو مجھے لکھنا ہی پڑے گا؟۔