قومی انتخابات کو اب صرف چند روز باقی رہ گئے ہیں پورے ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور امیدواروں کی عوامی رابطہ مہم بھی جاری ہے اس کے ساتھ یہ پورا ملک اندوہناک واقعات کی وجہ سے سوگ کی کیفیت میں ہے دہشت گردی کے خدشات ایک بار پھر پورے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پاکستان کے سیاسی مستقبل پر وار کرنے کی گہری سازش کا نتیجہ ہیں سانحہ مستونگ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں سرحد پار سے در اندازی کے واقعات ایک بار پھر زور پکڑ رہے ہیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم قومی سلامتی کے معاملات پر یکساں عزم کے ساتھ ڈٹ جائے اور متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے قومی انتخابات کے موقعہ پر قومی اتحاد کا مظاہرہ کر کے غیر ملکی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان آج جن حالات سے دوچار ہے اس تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال ہمیشہ ہی سے بنتی رہی ہیں جن میں بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ ملاپ شامل رہا ہے اب وقت کے بدلنے کے ساتھ اس ملاپ میں امریکہ اور افغانستان کے خفیہ ادارے بھی برابر شامل ہو چکے ہیں پاکستان میں غیر ملکی قوتوں نے اپنے ہم خیال حکمرانوں کی بھر پور پشت پناہی کی ہے اور ان حکمرانوں کی کرپشن کو بھی نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے آج یہ حکمران پاکستان کی قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جا چکے ہیں ان کے اثاثے اور جائیدادیں برطانیہ‘ امریکہ‘ سوئٹزر لینڈ اور فرانس کے علاوہ دوبئی تک پھیلے ہوئے ہیں اور پھر یہ حکمران ان ہی غیر ملکی آقائوں کے ایجنڈے کو پاکستان میں پورا کرواتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کی تقریروں نے قوم میں نیا شعور اور نیا عمل پیدا کیا ان کی تقریر کا ہر لفظ اپنا ایک معنی رکھتا ہے پاکستان کی تاریخ میں بابائے قوم محمد علی جناح کے بعد پہلی مرتبہ ایک ایسا سیاسی لیڈر پیدا ہوا تھا جس کی ٹوٹی پھوٹی اردو بھی عام لوگوں کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتی تھی وہ ہر لمحہ عوام کے مزاج اور سیاست کے حوالے سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے پاکستان کے آج کے حالات میں ان کی تقاریر کے چند اقتباسات پڑھ کر پاکستان کی موجودہ سیاست میں یقینا تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ستمبر 1968ء میں انہوں نے حیدر آباد میں پارٹی کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔’’دوستو! آپ جانتے ہیں اقتدار آنی جانی چیز ہے اقتدار کبھی سدا کسی کے پاس نہیں رہا۔ سکندر ‘ فرعون‘ چنگیز خان اور ہٹلر جیسے مطلق العنان حکمرانوں تک کا اقتدار ختم ہو گیا جو چیز ہمیشہ رہتی ہے اوروہ یہ کہ کس نے عوام کی خدمت کی اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کیا۔ کس نے قوم پرستی کی اور اپنا سب کچھ عوام پر قربان کر دیا۔ تاریخ کبھی کسی ظالم کو خراج عقیدت پیش نہیں کرتی اور نہ ہی کسی مظلوم اور انسانیت دوست کی قربانی کو نظر انداز کرتی ہے۔ وزیر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن قوم صرف ان کو یاد رکھتی ہے جو عوام کی خدمت کرتے ہیں فضل الحق نے 80سال کی عمر پائی لیکن وہ صرف دو سال وزارت میں رہے قوم نے ان کی مدت وزارت کو نہیں ان کی خدمات کو دیکھ کر شیر بنگال کا خطاب دیا۔ قائد اعظم نے صرف دو سال پاکستان پر حکومت کی لیکن عوام اپنے اس محسن کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ قائد اعظم نے حکومت وزارت اور اقتدار کو کبھی اپنے اصولوں پر فوقیت نہیں دی۔ کانگریس نے ان سے درخواست کی تھی کہ اگر وہ مطالبہ پاکستان کو ترک کر دیں تو وہ انہیں متحدہ ہندوستان کا صدر یا وزیر اعظم بنانے کو تیار ہے لیکن قائد اعظم نے مطالبہ پاکستان کو ترک کرنے کی بجائے وزارت اور صدارت کو ٹھوکر مار دی۔ مائونٹ بیٹن نے ہندوئوں کے ایما پر ان سے کہا تھا آپ برصغیر ہند کو کیوں تقسیم کرواتے ہیں آپ تقسیم ہند کی بات بھلا دیں تو ہم آپ کو اس ملک کا گورنر جنرل بنانے کو تیار ہیں۔ قائد اعظم نے کہا مجھے گورنر جنرل کا عہدہ نہیں چاہیے مجھے پاکستان چاہیے۔ یہی وجہ بنیادی فرق ہے جو ایک بااصول انسان اور ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہے جو اپنے اصول پامال کر کے اقتدار کی ہوس میں کرسیوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ اس تقریر میں آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو نے مزید کہا: ’’دوستو اور بزرگو! میں بھی انسان ہوں اور مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر آپ سے کہتا ہوں کہ مجھ سے کوئی ایسا گناہ سرزد نہیں ہوا جس کا یہ لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں میں نے دوران وزارت اپنے اختیارات کو بھول کر بھی ناجائز طور پر استعمال نہیں کیا میں نے کبھی قومی دولت کو غلط اور ناجائز طور پر استعمال نہیں کیا۔ ہاں مجھ سے ایک گناہ ضرور سرزد ہوا ہے اور وہ صرف یہ ہے کہ آٹھ سال تک میں اس حکومت سے وابستہ رہا ہوں۔ حالانکہ وہاں پر بھی حسب مقدور میں نے ملک و قوم کی خدمت کی ہے حکومت کو جب میرے خلاف کوئی ٹھوس مواد نہیں مل سکا تو مجھ پر یہی الزام دہرایا گیا کہ میں نے آدھی قیمت دے کر قومی ٹریکٹر استعمال کئے تھے۔ کتنا مضحکہ خیز الزام ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں اس ملک کا وزیر خارجہ ہی نہیں آئل اور صنعت کا بھی وزیر رہا ہوں۔ اگر میں چاہتا تو ٹریکٹر کی تو کیا اہمیت ہے دوسرے وزیروں کی طرح میرے پاس بھی ملیں اور فیکٹریاں ہوتیں اور ملک سے باہر میرا بینک بیلنس ہوتا۔ لیکن خدا کا کرم ہے میری نیت ہمیشہ صاف رہی اگر مال و دولت کی ہوس ہوتی تو اسے حاصل کرنا میرے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ ایک بار دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت کے نمائندے نے میرا بازو تھام کر کہا تھا ’’بھٹو! اگر تم پاکستان میں ہمارے راستے سے ہٹ جائو تو اس کے بدلے میں ہم تمہیں وہ سب کچھ دینے کو تیار ہیں جس کی تم خواہش کرو گے‘‘ میں نے غصے سے اپنا بازو چھڑا کر اس سامراجی کو جواب دیا تھا ’’خبردار جو تم نے پھر کبھی ایسی جرأت کی ’’اگر تم نے چند وطن فروشوں کو خرید لیا ہے تو یہ خیال مت کرو کہ پاکستان میں ہر شخص میر جعفر اور میر صادق ہے۔ میں شعیب نہیں جس نے وطن دشمنی کے صلے میں واشنگٹن ارو سوئٹزر لینڈ میں روپیہ جمع کر رکھا ہے‘‘بیورو کریسی کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اس طرح سے کہا۔ ’’ہر جمہوری اور ترقی پسند ملک کا انتظام اس ملک کے دستور اور قانون کے مطابق چلا کرتا ہے اس لیے وہاں انتظامیہ کی یہ اہم ذمہ داری ہوا کرتی ہے کہ دستور کے مطابق اس کی روشنی میں ہر قدم اٹھائے اور اس ملک کا نظم و نسق چلائے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں ہر کام اس کے برعکس ہوتا ہے یہاں دستور انتظامیہ کی رہنمائی نہیں کرتا انتظامیہ دستور کی رہنمائی کرتی ہے یہاں انتظامیہ دستور کے مطابق کام نہیں کرتی بلکہ دستور انتظامیہ کی مرضی پر چلا کرتا ہے آپ جانتے ہیں کہ جس ملک سے دستور کی سربراہی اور قانون کی بالادستی اٹھ جاتی ہے اس ملک سے عدل و انصاف بھی اٹھ جاتا ہے انتظامیہ عوام کی محافظ اور خادم ہے لیکن پاکستان میں انتظامیہ کا کام کچھ اور ہے یہاں اس کی اہم ذمہ داری اور فرض یہ ہے کہ حاکموں کا شاندار استقبال کرے دفعہ 144کے باوجود ان کے جلسے اور جلوسوں کا انتظام کرے۔ حاکموں کے زندہ باد اور حزب اختلاف کے لیے مردہ باد کے نعرے لگانے کا کم سے کم ریٹ پر انتظام کرے۔ وزیروں اور حکمرانوں کی مدح سرائی میں رات دن مشغول رہے مخالف جماعتوں کے جلسے بگاڑے اور ان کے جلوسوں پر لاٹھی چارج کرے غنڈہ عناصر کا تحفظ کرے اور شریفوں کو غنڈہ ایکٹ کے تحت بند کر دے فحاشی اور جوئے کے اڈوں کی سرپرستی کرے اور انتخابات میں حکمران جماعت کے لیے بوگس ووٹوں کا انتظام کرے اس بات کی خبر گیری کرے کہ جمہوریت‘ سوشلزم اور آزادی کے نعرے کی آواز نہ اٹھنے پائے۔ 8مارچ 1970ء کو موچی دروازہ لاہور میں ایک بڑے عوامی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا: ’’میرے بھائیو! میں نے ساری دنیا دیکھی ہے لوگ کتنی ترقی کر چکے ہیں مگر ہمارے عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی تکلیفیں روز بروز بڑھ رہی ہیں ایک طبقہ ان کا خون چوس رہا ہے۔ مائوں کے سینوں سے دودھ خشک ہو چکا ہے لوگ فاقے کر رہے ہیں میں ایسے حالات کو کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔ لوگ نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں میں بتاتا ہوں نظریہ پاکستان کیا ہے؟ قیام پاکستان کے وقت بنیادی نظریہ یہ تھا کہ پاکستان میں عوام کی ترقی اور خوشحالی ہو گی ان کے بچوں کو مفت تعلیم ملے گی اگر کوئی غریب بیمار ہوا تو اس کا مفت علاج ہو گا ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق روٹی کپڑا اور مکان ملے گا یہ ہے اسلام کا پیغام اور نظریہ پاکستان اور میں اسلام کے پیغام کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ 11 جنوری 1970ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے عوامی جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کا یہ اقتباس بھی غور طلب ہے۔ اگر ایران اور مصر جیسے ملکوں میں مفت تعلیم اور بلا معاوضہ طبی امداد دی جا سکتی ہے تو پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ یہاں کے عوام اپنے بچوں کو کیوں تعلیم نہیں دلا سکتے یہاں بیماروں کو ہسپتالوں میں کیوں داخلہ نہیں مل سکتا انہیں کیوں دوائیوں پر پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں ان کے بچے رات کو کیوں فاقوں سے بلکتے سو جاتے ہیں ان کے مردوں کو کیوں کفن نصیب نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ یہاں 22خاندانوں نے دولت پر قبضہ جما رکھا ہے! پاکستان 22خاندانوں کی دولت سمیٹنے کے لیے نہیں بنا تھا پچھلے 22سال سے عوام کو وعدوں پر ٹرخایا جا رہا ہے صبر کی انتہا ہو چکی ہے اب صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے ہم کہتے ہیں عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے اقتصادی نظام میں تبدیلی کرو اس کے بغیر خواہ کتنے ہی آئین آئیں پارلیمانی نظام حکومت ہی کیوں نہ قائم ہو جائے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک اقتصادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جاتا کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں ترقی اور عوام کی خوشحالی کی خاطر 22خاندانوں کی لوٹ کھسوٹ ختم کرنا ضروری ہے۔ پس تحریر:یہ اقتباسات پڑھ کر فیصلہ خود کر لیں کہ اب ہم کس حال میں ہیں اور قومی انتخابات میں ہمیں ووٹ کن لوگوں کو دینا چاہیے۔