منیر نیازی نے کہا تھا: زمانے والوں کی کیا پڑی ہے، سنیں جو حالِ دلِ شکستہ مگر میری تو یہ آرزو تھی ، مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا کوئی بتائے ضرور ۔۔۔مگر گلا یہ کرتے ہیں کہ کوئی ’’گوڈ لیسنر‘‘ یعنی ذوقِ سماعت کا حامل نہیں۔ انسانی وابستگیوںکو ابلاغ کے ذریعے مضبوط بنایا جاتا ہے۔ گفتگو اور بات چیت ہی کے ذریعے جہاںنئے روابط استوار کیے جاتے ہیں، وہیں مسائل کا حل بھی اسی کے توسط سے نکالا جانا مفید تر سمجھا جاتا ہے ۔کوئی خواہ کتنا ہی تنہائی پسند یا انٹرووَرٹ کیوں نہ ہو ، اسے اچھا سننے والے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ البتہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس طرح اچھا بولنا ، اور خوبصورت گفتگو ایک آرٹ ہے۔دوسروں کو سننا بھی کسی خوبی سے کم نہیں۔ انگریزی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کہتا ہے ’’جب کوئی بول رہا ہو ، اسے بغور سنو ۔ بیشتر دوسروں کو سنتے ہی نہیں ہیں۔ـ‘‘ بیسویں صدی کے ماہرِ نفسیات کا رل راجر نے اس پر بہت کام کیا۔اس کا یہ ماننا تھا کہ دوسروں کو سننے کی صلاحیت کسی بھی تعلق کو مضبوط بنانے کا سب آسان اور سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ اس صلاحیت کو کارل راجر نے "Active Listening" کا نام دیا۔ عموما ہم کسی کو سنتے وقت اپنی سوچ میں مگن او ر اپنے خیالات میں گم ہو جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر موبائل پوری کر دیتا ہے، کہ کوئی ہم سے ہم کلام ہو اور ہم اپنا فون استعمال کرنے سے نہ ہٹیں۔۔۔ اس غیر مہذب عمل سے صرف ایک ہی تاثر جاتا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں ان کی بات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کیٹ مرفی اپنی کتاب "You're not listening" میں لکھتی ہے ـکہ ہمیں اپنے دل کی سننے کا کہا جاتا ہے، اپنے اندر کی آواز سے ہم کلام ہونے کا درس دیاجاتا ہے ، پر یہ نہیں سیکھایا جاتا کہ کسی دوسرے کو بغور کیسے سننا ہے۔ ایک کامیاب تھیرپیسٹ کا کمال کیا ہے؟ یہی کہ وہ آپ کے انداز فکر میں داخل ہوکر آپ کو صرف یہ محسوس کرواتا ہے کہ وہ آپ ہی کی جگہ کھڑا ہو کر آپ ہی کی طرح سوچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے ، بقول راجر،کہ پھر سنانے والا اپنے آپ کو اکیلا نہیں محسوس کرتا۔۔۔بلکہ ذہنی کشمکش خود بخود دور ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے "self-insight" یعنی خود آگاہی کی راہیں استوار ہونے لگتی ہیں۔ راجر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایکٹِو لسننگ‘‘ کی راستے ہموار کرنے والی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ آپ بولنے والے کو لاشعوری طور پر بیوقوف اور کند ذہن سمجھتے ہیں۔ بقول راجر جب تک آپ اگلے کو یہ نہیں محسوس کروائیں گے کہ اس کا کچھ بھی کہا آپ کے لیے معنی رکھتا ہے اور آپ اپنی سماعت اس کی گفتگو کی نذر کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ، آپ ’’ایکٹِو لسنر‘‘ نہیں بن سکتے۔ گویا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بولنے والے کو ایسا ماحول فراہم کریں جو تنقید،اخلاقی تلقین اورناصحانہ گفتگو سے عاری ہو۔ مرزا غالب بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں: یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا آپ نے یہ اکثر محسوس کیا ہوگا کہ جب آپ کسی کو کچھ سنانے لگیں ، تو بات کے مکمل ہوئے بغیر سننے والا اپنی سنانے لگ جاتا ہے۔ بقول راجر، اس کی وجہ اپنی ذات پر گرفت کا کمزورہونا ہے۔ کیوں کہ ہمارے اپنے جذبات آگے اور بولنے والے کے خیالات پیچھے رہ جاتے ہیں۔جبکہ کسی کو سننے کے لیے اپنی نفی کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ کسی اور کو دینا لازم ہے۔ دوسرے الفا ظ میں ’’ایکٹِو لسننگ‘‘ لوگوں کے بارے میں نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ سوچنے کے عمل کا اظہار ہے۔ یعنی ان کے الفاظ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں چھپے جذبات اور احساسات کو بھی محسوس کرنا ہی کمال ہے۔ ’’ایکٹِو لسننگ‘‘ دراصل دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم اپنا وقت اگر کسی کو دیتے ہیں ، تو صرف اسی لیے کہ ہم ان کا بھلا چاہتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ وہ جن بے ترتیب خیالات کی الجھنوں میں پھنسے ہیں، آزاد ہو کر بہتر سوچنے کی طرف آجائیں۔ Attention یعنی توجہ کا کمال ہی یہ ہے کہ آپ با آسانی کسی کا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ اعتماد کے بحال ہوتے ہی نفسیاتی گنجلکوں میں سکون واقع ہونے لگتا ہے ۔ جس سے سوچ اور فکر کے لیے صحیح سمت کا تعین آسان ہوجاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب کوئی فقیر یا بابا اپنے ڈیرے پر موجود ہوا کرتا ۔۔۔لوگ اسے اپنا آپ سناتے، دل کا حال بتاتے ، تو وہ پوری بات بغور سنتے ہی سب سے کہتا کہ آئو اس کے لیے دعا کریں۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ اس سب کے بعد سوالی کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا اوردعا ہوتی دیکھ کر ایک امید بھی جاگ اٹھتی، جو اس کے اعتماد کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیتی۔ المیہ یہ ہے کہ وقت کی روانی اس قدر تیز ہو چکی ہے، کہ اب ایک گھر میں رہنے والوں کے پاس ایک دوسرے کو سننے کا ٹائم نہیں ۔۔۔۔ٹائم دور کی بات ایک دوسرے کو سمجھنے کی بھی سکت نہیں۔ نتیجہََ ’’تھیریپسٹ‘‘ سے رجوع دیکھنے میں عام نظر آتا ہے۔