نیا سال شروع ہوتا ہے تو نئی امیدیں اور نئی خواہشات کے ساتھ ساتھ گزرے لمحات کا تجزیہ بھی ضروری ہوتا ہے ، میں نے گزشتہ کالموں میں جنوری کاذکر کیا تو جنوری کے اہم واقعات میں ایک 5 جنوری بھی شامل ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش کا دن ہے ۔ پاکستان میں بھٹو کے حامی اور مخالفین موجود ہیں ۔ بھٹو سے وسیب کے لوگوں کو بھی اختلاف ہے کہ وہ نئے پاکستان اور نئے پاکستان کے آئین کے خالق بھی تھے ، اگر وہ چاہتے تو وسیب کو بھی آئینی شناخت دے سکتے تھے کہ وہ تاریخی ، ثقافتی ،جغرافیائی طور پر جانتے تھے کہ مغلیہ عہد میں صوبہ ملتان ہندوستان کا بہت بڑا صوبہ تھا اور دنیا کے نقشے پر ملتان کا وجود قدیم اور عظیم سلطنت کی شکل میں بھی موجود رہا ہے، مگر یہ الگ المیہ ہے کہ وسیب سے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود وسیب کو بھٹو نے کچھ نہ دیا ۔ بھٹو کے بعد وسیب کے لوگوں نے پیپلزپارٹی کو چالیس سال ووٹ دیئے مگر ان کی پارٹی کی طرف سے بھی وسیب کو کچھ نہیں ملا ۔ اختلاف کے باوجود یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو نے غریب کو اس کے ہونے کا احساس دیا ۔ بلاشبہ وہ غریبوں کے ہمدرد اور غمگسار تھے اور غریبوں کیلئے اقدامات بھی کیے ، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایسے لوگ روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںدیدہ ور پیدا بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ نواز بھٹو(1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشیدبانو شاہ نواز کی دوسری بیوی تھیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں‘اصل نام لکھی بائی تھا لیکن شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام خورشید رکھا گیا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اوکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔ 1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنالیا جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا۔ آپ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30نومبر1967ء کو آپ نے اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پچھلے دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ساتھی ملک الطاف کھوکھر سے ملاقات ہوئی تو انہوںنے ذوالفقار علی بھٹو کی سرائیکی سے محبت کے بہت حوالے دیئے، وہ بتا رہے تھے کہ ، بھٹو ایک مرتبہ ملتان آئے تو بھکر کے ایک ایم پی اے جو سرائیکی تھے انہوںنے اپنے ساتھیوں سے پنجابی میں بات کی تو بھٹو نے برا منایا اور کہا کہ تم سرائیکی میں بات کرو ، وہ بتاتے ہیں کہ بھٹو ہمارے ساتھ سرائیکی میں بات کرتے تھے جس سے ہمارا حوصلہ ہوا اور ہمارا اعتماد بڑھا ، وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم بھٹو کے ساتھ ملتان کے مزارات پر گئے تو بھٹو نے مزار پر لگی بلیو ٹائلز پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ ابدیت کی نشانی ہے ۔ایک مرتبہ انہوںنے بتایا کہ سرائیکی صرف وادیٔ سندھ ہی نہیں پورے برصغیر جنوبی ایشیا کی قدیم اور اصل زبان ہے۔ اس موقع پر میں ایک اور واقعے کا ذکر کرونگا جو کہ سرائیکی صوبہ تحریک کے بانی ریاض ہاشمی مرحوم کے حوالے سے ہے ، وہ بتاتے تھے کہ ہم بہاولپور صوبے کی تحریک شروع کیے ہوئے تھے اور برسر اقتدار آنے کے بعد بھٹو مجھے اپنے طیارے میں کراچی سے لاڑکانہ لے گئے اور مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر حقائق سے آگاہ کیا اور کہا کہ تم لوگ تین اضلاع کے صوبے کی بجائے تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر صوبے کا مطالبہ کرو ، مجھے بات سمجھ آئی اور آج ہم سرائیکی قوم کی حیثیت سے عوام کی عدالت میں پیش ہیں۔ وسیب کے حوالے سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے جذباتی لگائو تھا، ان کو سندھی کا شاید ہی کوئی شعر یا د ہو لیکن بہت سی سرائیکی کافیاں انہیںزبانی یاد تھیں، ذوالفقار علی بھٹو ایوان وزیر اعظم میں خصوصی محافل سجا کر پٹھانے خان سے صرف سرائیکی کافیاں سنتے۔ سرائیکی سے محبت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو یقین ہو چکا تھا کہ ضیاء الحق کورٹ اسے نہیں چھوڑے گی تب بھی آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے سرائیکی زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت میں سرائیکی زبان کی قدامت عظمت اور مٹھاس کو زبر دست الفاظ میں خرا ج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ سرائیکی شعر سنائے’’ درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘ سنائے یا پھر اس سے پہلے جیل میں ہر وقت ان کی زبان پر ’’کیکوں حال سنْاواں دِل دا،کوئی محرم راز نہ مِلدا‘‘کے بول ہوتے ۔ سوال یہ ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی ایک جھلک بھی موجود ہے؟ بھٹو کی سالگرہ ہے، سالگرہ کا تحفہ اور کوئی پیغام ضرور ہوتا ہے ، مجھے یاد آ رہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی 21 جون 1978ء کو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے ۔آپ کے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی اور تمہاری دادی نے غربت کی سیاست کا درس دیا۔ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتیں ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو ۔ تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں ۔‘‘ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایک ایسا شخص نظر نہیں آتا جسکو اپنی دھرتی ،اپنی مٹی اور اپنے وسیب کے لوگوں سے محبت ہو۔ سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ بھٹو کے جانے کے بعد پاکستان میں قیادت کا جوخلا پیدا ہوا ہے وہ ابھی تک پُر نہیں ہو سکا ۔