وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، مولانا فضل الرحمن ایک جم غفیر کے ساتھ اسلام آباد جا کر بیٹھ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں ہی وزیراعظم کے استعفے کامطالبہ کردیا جس کے لیے حکومت اور اداروں کو دو دن کی مہلت دی۔ سڑکوں پر دھرنوں کے ذریعے حکومتیں نہیں گرائی جانی چاہئیں اورنہ ہی آسانی سے گرتی ہیں،اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو تو پہلے ہی کانوں کو ہاتھ لگا چکے ہیں کہ ہم نظریاتی طور پر دھرنوں کے مخالف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرتے ہوئے پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بھی ٹکا سا جواب دیا کہ ہم محض جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں گویا حلو ہ کھانے آئے تھے اور حلوہ کھا کر جا رہے ہیں۔ ویسے مولانا نے اتنی بڑی تعداد میںمقلدین اپنے اردگرد اکٹھے کر لیے ہیں کہ انھیں کسی اور سیاسی جماعت کی کمک کی ضرورت نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کا یہ دودن کا دھرنا کب تک چلتا ہے، جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے اپنی تقریر میں ’’اداروں‘‘ کو بھی معاف نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ہمارے ادارے ہیں اور ناجائز حکمرانوں کا تحفظ کر ر ہے ہیںتو پھر دو دن کی مہلت ہے، پھر ہمیں نہ روکا جا ئے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ مولانا کا اشارہ مقتدر قوتوں کی طرف ہی ہو گا، بہتر ہوتا کہ وہ فوجی قیادت کو اس معاملے سے باہر رکھتے۔ ڈی جی آئی ایس پی آ ر میجر جنرل آ صف غفور سے بھی نہ رہا گیا، ان کا سوال تھا کہ مولانا کون سے اداروں کی بات کر رہے ہیں،ان کا روئے سخن الیکشن کمیشن کی طرف ہے، عدالتوں کی طرف ہے یافوج کی طرف؟میجر جنرل آصف غفور نے بجاطور پر وضاحت کی کہ ہم کسی پارٹی کی نہیں، جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کر رہے ہیں، فوج غیر جانبدار ادارہ ہے، سڑکوں پر آکر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہونگے، ملکی استحکا م کو نقصان پہنچانے کی کسی صورت اجا زت نہیں دی جا سکتی۔ شاید حقیقت بھی یہی ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے جسد سیاست میں یہ تاثر جاگزین ہو گیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات شفاف نہیں تھے جیسا کہ شہبازشریف نے کہا کہ عمران خان پتھردل، مغرور اور خالی دماغ ہیں مقتدر اداروں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تاکہ شاید پاکستان آگے بڑھے، مجھے رشک آتا ہے کہ کاش جتنی مد د، رہنمائی ان کو دی گئی ہمیں اس کا دس فیصد بھی ملی ہوتی تو پاکستان کو ترقی کے آسمان پر لے جاکر عظیم ملک بنا دیتے۔ مولانا فضل الرحمن نے فوجی ترجمان کو جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آ ر نے کہا بتائیں کون سا ادارہ ہے، ان کی بات میں ادارہ خود سامنے آگیا ہے، فوج نے عمران خان کے اس بیان کی وضاحت بھی نہیں دی جس میںانہوں نے کہا تھا کہ فوج میرے پیچھے ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، وہ خود کو سیا ست میںملوث نہ کریں، اداروں کو سیاست سے دوررہناچا ہیے۔ بہتر ہوتاکہ کوئی سیاستدان مولانا کے بیان پر ردعمل دیتا، اور مولانا بھی پاک فوج کو ٹھونگے نہ ما ریں۔ فوج کے ترجمان بھی سیاستدانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنے دیں۔ اس سے پہلے خود عمران خان نے 2014ء میں 126دن کا دھرنا دیا لیکن اس کے باوجود کہ میاں نواز شریف کے اس وقت کی فوجی قیادت کے ساتھ تعلقات بہت خوشگوارنہیں تھے خان صاحب کی علانیہ توقعا ت کہ تیسرا امپائر جلد ہی انگلی اٹھادے گا نقش برآب ثابت ہوئیںاب جبکہ بقول شہبا زشریف عمران خان فوجی قیادت کے لاڈلے ہیں تیسرا امپائر کیونکر انگلی اٹھا ئے گا۔ اسی روز وزیر اعظم عمران خان نے گلگت میںخطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔انہوں نے کہا کہ پیسے اور اقتدار کے لیے اسلام کا نام لینے کا دور چلا گیا، دھرنا دینے والے بے شک جتنے دن چاہیں بیٹھ جا ئیں، جب کھانا ختم ہو گا وہ بھی بھجوا دیں گے لیکن کسی کو این آر او نہیں ملے گا،کچھ بھی ہو جا ئے استعفیٰ نہیں دوں گا۔فضل الرحمن کا اسلام ڈیزل کے پرمٹ، کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور پیسے پر بک جاتا ہے، سا رے بے روزگار اور سیاسی یتیم اکٹھے ہو گئے ہیں ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو بچانا ہے۔ میں نے اللہ سے وعد ہ کیا تھا کہ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے ان سب کو جیلوں میں بھجواؤں گا، ان کو پتہ ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے انھیں جیلوں میں جانا ہے۔ فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے یہودی سازش کی ضرورت نہیں ہے، بھا رتی میڈیا انھیں اپنے شہری کی طر ح کو ریج دے رہا ہے۔ اسحاق ڈار کے والد کی سائیکل کی دکا ن تھی آج وہ اور ان کے بچے ارب پتی ہیں۔ شہباز شریف کا بیٹا اور داماد ملک سے فرار ہیں، اگر انہوں نے چوری نہیں کی تو یہ باہر کیوں بیٹھے ہیں،بلاول بھٹو لبرل نہیں بلکہ لبرلی کرپٹ ہیں ۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان رابطہ فی الحال معطل ہے، بہتر ہو گا کہ حکومت اسے جلداز جلد بحال کرنے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ ملک جو اقتصادی طور پر پہلے ہی بدحال ہے ایک نئے سیاسی بحران میں گھر گیا ہے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم بھی انتہائی بھولی ہے کہ رہبر کمیٹی نے مذاکرات کے دوران وزیرا عظم کے استعفے کا کہیں ذکر نہیں کیا گویا کہ وہ اسلام آباد برگر کھانے آئے ہیں۔ مولانا بزور بازو حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیںاگر یہ ریت چل پڑی تو کو ئی جماعت بھی حکمرانی نہیں کر پائے گی لیکن وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم خاصی حد تک اس بحران کے خو د ذمہ دار ہیں۔اپو زیشن کو دیوار سے لگانا اور ان کے نام تضحیک سے لینا سیا سی رو یہ نہیں ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے نام پر انتقامی کارروائیاں عروج پر ہیں اور میڈیا کے گرد بھی حصار تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان باتوں سے اگر کوئی فرق پڑتا تو نہ ایوب خان کے خلاف تحریک چلتی اور نہ ذ والفقار علی بھٹو کے خلاف اور نہ ہی کوئی جنرل پرویز مشرف جیسا آ مر قوم کے سر پر سوار ہوتا۔ اس امر کے باوجود کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی چینلز پر لائیو کوریج پر پابند ی لگا دی گئی تھی انہوں نے اسلام آباد میں ایک خاصا بڑا شو کرلیا۔ یہ با ت بھی قابل تعریف ہے کہ آ زادی ما رچ کے شرکاء مکمل طور پر پرامن رہے اور ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا۔ مولانا کے اس شو سے کسی کو فائد ہ پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو انہیں یقیناً پہنچا ہے، پابندیوں کے باوجود کئی ہفتوں سے میڈیا پر مولانا، مولانا ہو رہی ہے۔ اس قسم کے بیان دینا کے انہیں ڈیز ل کا پرمٹ اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے طور پر منسٹر انکلیو میں 22نمبر گھر چا ہیے مناسب طر ز عمل نہیں ہے۔ مولانا کی دیانتداری کی قسم تو نہیں کھائی جاسکتی لیکن جو شخص اتنے بڑے جم غفیر کی قیادت کررہا ہو اور حکومتی جماعت کو چھوڑ کر ملک کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پرلے آ ئے اس کے لیے یہ معمولی مراعات کیا حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سارے قضیئے میں مسلم لیگ (ن) کی کمزوریاں بھی واضح طور پر آشکار ہوئی ہیں، پاکستان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی’ آزادی مارچ‘ میں شرکت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف تو ہسپتال میں شدید علیل ہیں لیکن یہ وا ضح ہو گیا ہے کہ اس کے باوجود کہ برادر خورد شہبا زشریف نے جمعہ کو دھرنے میں بڑی پرُجو ش تقریر کی وہ اپنی تر جیحات کھلی رکھ رہے ہیںاور لگتا ہے کہ نواز شریف بھی اپنی علالت یا کچھ اور مصلحتوں کے پیش نظر برادر خورد کی لائن پر آ رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی آزادی مارچ اور دھرنے میں اب تک علامتی شرکت ہی ہے۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال پیپلزپارٹی کی ہے جو کوئی ایساقدم نہیں اٹھانا چا ہتی جس سے غیرجمہوری قوتوںکو تقویت ملے یا سسٹم ہی لپیٹ دیا جائے اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی عمران خان کے اقتدار کو دوام بخشنا چا ہتی ہیں بلکہ انہوں نے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے کی بھرپور حمایت کردی ہے۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی گرفتاری کے اعلان کے حوالے سے مو لانا فضل الرحمن کے خلاف غداری کے الزام میں مقد مہ چلانے اور عدالت جانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ نہ جانے خان صاحب کو یہ مشورہ کس نے دیا ہے۔ 2014ء کے دھرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت ان پر غداری کے کئی مقد مے بن سکتے تھے۔ بہتر یہی ہو گا کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے کی بھرپورسعی کی جائے ۔