ایک روز کسی دانشور نے جگرسوزی سے ایک درد مندانہ تحریری بھیجی ہے کہ ایک سناٹے دار موضوع پر توجہ فرمائیے۔ موضوع پر غور کیا تو واقعی احساس کو بھی سناٹا آ گیا۔ ہم بولتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ تبصرے کرتے ہیں اور پھر موضوع کو ترک کرنے پر متفق ہو جاتے ہیں یا پھر کچھ وقت کے لئے تلملاتے ہیں‘ موضوع یہ ہے کہ اس ملک کے اشرافیہ اپنے بھاری بھاری حرموں کے ارتکاب کے باوجود بھی قابل احترام رہتے ہیں۔ عزت کی کلغی ان کی پیدائشی صفت اور وراثتی اثاثے کی طرح سمجھی جاتی ہے یہ اشرافیہ نجانے کس شرافت اور کس استحقاق کی بنیاد پر دائمی معززین شمار کئے جاتے ہیں؟ یہ اشرافیہ قوم کی امانت کو ڈکارنے کے لئے ایسے ایسے استحقاقی قوانین کا سہارا لیتے ہیں‘ جو خود ان کی اجتماعی قزاقانہ نیت اور ارادے سے وجود میں آتے ہیں۔ عوام اور خواص کا جو فرق فرنگی نے محض سادہ لوح مسلمانوں کو پست کرنے کے لئے قانون کی لاٹھی سے آشنا کروایا تھا۔ وہ مفسد و قدیم قانون بھی پاکستانی اشرافیہ کو حالت مجرمانہ میں ہی دستار عزت بنائے رکھتا ہے۔ سادہ سا اصول انصاف ہے کہ جتنا بڑا مجرم اتنی ہی کڑی سزا ہوا کرتی ہے‘ لیکن انتظامیہ کے ضوابط اور قواعد کچھ اور بتاتے ہیں کہ اگر بے کس محکوم مجرم ہو تو جیل کی سختیاں اسے دور غلامی کی یاد دلا دیں اور اگر مجرم متمول ہو سیاسی قوت کی رسی اس کے دست فرعونی میں ہو تو جیل میں اسے معاشرتی تفریق و برتری کے حوالے سے پر آسائش ماحول دیا جائے گا اور کوئی کمزور بے سہارا کم جرم قیدی اس اشرافیہ نمائندہ کا خادم ہو گا۔کسی بھی دور میں اقتدار کی گھومتی کرسی کے اردگرد حواری اشرافیہ ہونے کی سند رکھتے ہیں۔ قوم ایک شدید معاشی بحران میں ستم زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کچھ وعدے ‘ و عید محض ایک قدیم روایتی سیاست کا عنوان ہیں۔ کرپشن‘ لوٹ مار اور بے حسی کا شکار حکومتی کارندے ہر دور میں غریب عوام الناس کے خون سے نچوڑے ہوئے ٹیکس پر اپنا حق خدمت وصول کرتے ہیں۔ اپنے اقربا کو مراعات کی جنت میں بسانا ان کا قانونی اختیار بتایا جاتا ہے۔ جن قرابت داروں اور دھڑے سازوں کو نوازنا مقصود ہوتا ہے ان کو خود ساختہ ضوابط کی من پسند تشریح کی آڑ میں شرف مال و جاہ سے ممتاز کر دیا جاتا ہے اور غریب کے بچے کی تعلیم‘ صحت اور روزگار کی باری میں خالی خزانہ اور بالکل خالی خزانے کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ اور اپنے سیاسی اختراقی ماحول کو دھواں دھار رکھنے کے لئے ثقافت علاقائیت اور لسانیات کے گھوڑے پر سوار ہو کر طبل فساد بجانے کا فن بھی ان کی مزعومہ سیاست کا بنیادی فلسفہ ہوتا ہے۔ اس انسانیت سوز فلسفے کو نظریے کہا کرتے ہیں اور اپنی مکروہ سیاست کے چہرے پر نظریے کا فریب زدہ نقاب ڈالا جاتا ہے۔ کتنی ہی سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنے لیڈران کرام کی زرپرستی کے ذوق کی تکمیل کے لئے ان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتی ہیں اور ان کی بے جا حماقتوں کو بقراطیت کا نام دینے پر مضر رہتی ہیں ابھی یہ چند روز پہلے کسی نے عجب ترنگ میں یہ پیغام سب تک پہنچایا کہ ہماری قومی مٹھائی گلاب جامن ہے اور یہ نئی ترنگ تھی کہ لوگوں پر اپنا ذوق طفلانہ مسلط کر دیا جائے اور بے پرکی اس اڑان سے لوگوں کے ذوق کو چڑایا اور انہوں نے سندھ میں ایک جلوس نکالا کہ ہم لوگ تو برفی کو قومی مٹھائی قرار دیتے ہیںابھی چند روز پہلے کچھ تجربہ کار خوشامدی جمع ہوئے اور انہوں نے اپنا ایک قومی درد سنایا کہ مذہب کی تشریح کا فریضہ انہیں سونپ دیا جائے تاکہ وہ مذہب کو خوشامد کی چار دیواری میں اشیر کر دیں اور خدائی احکامات کو لوگ غیر معتبر سمجھنے لگ جائیں۔ خوشامدی اور کچھ لوگ ایسے نااہل ہیں کہ وہ اپنی بدزبانی کو اقتدار کی اہلیت کی سند قرار دینے پر مضر ہیں۔ اشرافیہ نے اپنی تحکمانہ روش کو سلامت رکھنے کیلئے خوشامدی گروہوں کی صلاحیت کو مستقل قوت فراہم کرنا قوم کی خدمت قرار دیا ہے۔ اگر کوئی بڑا بھول کر یا جان بوجھ کر بھولنا چاہے اور اس کی زبان سے کوئی دل آزار جملہ برآمد ہو تو خوشامدی گروہ اس جملے کی تاویلات سے ایسے ایسے نئے معانی برآمد کرتا ہے کہ لوگ اصل بات کو بھول کر فاسدانہ تاویل پر تبصرے کرتے ہیں۔اب تو جب کبھی مذہب کی اوٹ میں پناہ درکار ہو تو خوشامدی گروہ ریاست مدینہ کے مقدس حرفِ توانا سے اپنی ڈھٹائی کو قوت دینے کی سبیل کرتا ہے۔روزانہ کسی قرابت دار کی ناز برداری انتظامیہ کو کرنا پڑتی ہے۔ اگر قانون دار انگڑائی لے تو اشرافیہ کے ڈھولچی اخلاقیات کا درس شروع کرتے ہیں۔اچانک ایک نقیب صاحب نے کہا کہ کچھ تنقید ہو تو وزیر اعظم کی تو ہین ہو جاتی ہے۔ انہیں حقیقت کو منہ چڑانا آسان ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے کسی قول و فعل پر تنقید اس لئے برداشت نہیں کہ ان کے تصور مسیحائی پر داغ آتا ہے۔ریاست مدینہ میں خلیفہ خطبہ دے رہا تھا کہ ایک عامی نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ نے اپنے لباس میں فضول خرچی کی ہے۔ خلیفہ نے حوصلے سے جواب دیا کہ میرے لباس کی ضرورت اتنی ہی تھی جو میرے زیر استعمال ہے۔ یہ فالتو کپڑا میں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے مانگ کر اپنا کرتا تیار کروایا ہے۔ ناقد مطمئن ہو گیا۔ بدزبانی نہ ناقد نے کی تھی اور سخت لہجہ نہ ہی امیرالمومنین کا تھا۔ ریاست مدینہ کے نعرے کی آڑ میں سب کھیل اپنی منشاء کے اصولوں پر کھیلا جا رہا ہے۔ اب تو جیل میں بھی قومی مجرموں کو آسائش دینے یا پھر ان کی پرآسائش رہائش گاہ کو جیل قرار دینے کا فرسودہ دستور بھی جاری ہے۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ایک علیحدہ کام ہے اور قومی مسائل پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر قوم کو بے وقوف بنانا دوسرا کام ہے۔ کل کے مقتدر اشرافیہ بھی یہی کرتے تھے اور آج کے دودھوں دھلے اشرافیہ بھی اپنے من کے چین میں اپنی ایجاد کردہ بنی بانسری بجا رہے ہیں‘ نئی گاڑیاں‘ نئی آسائشیں قومی خزانے کے سینے پر مونگ دلنے کا ایک نیا انداز ہے۔ حالات تبدیل نہیں ہو رہے۔ آسائشیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ تبدیلی آ رہی ہے۔ پتنگ کی ڈور سے عوامی پھانسی کا برسر بازار اہتمام بھی تبدیلی کا ہے دوسرا نام۔