اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور اقتصادی اور سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے صدر منیر اکرم نے اجلاس سے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں ان ممالک سے لوٹا اور چوری کیا گیا سرمایہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہر سال دنیا کے غریب ممالک سے 7کھرب ڈالر ترقی یافتہ ممالک اور سیف ہیونز میں منتقل ہوتا ہے۔ گلوبل فنانشنل انٹیگریٹی کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء ترقی پذیر ممالک کی کل آمدن ،امداد سرمایہ کاری اور ترسیلات زر سمیت دو ٹریلین ڈالر تھی جبکہ ان ممالک سے پانچ ٹریلین ڈالر ترقی یافتہ ممالک کی طرف منتقل ہو گئے رپورٹ کے مطابق یہ تین ٹریلین ڈالر کا فرق ترقی یافتہ ممالک کے کل امدادی بجٹ سے 24گنا زیادہ ہے اس طرح ترقی یافتہ ممالک دنیا کے غریب ممالک کو ایک ڈالر امداد دیتے ہیں تو یہ ایک ڈالر ان ممالک سے 24 ڈالر اپنے ساتھ لے اڑتا ہے۔ غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت کی محفوظ پناہ گاہوں میں منتقلی غریب ممالک کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ امریکہ جیسے طاقتور ملک سے بھی غیر قانونی سرمایہ بیرون ممالک محفوظ کیا جاتا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے تو بہتر نظام، فعال عدالتوں اور قانون پر عملداری ہونے کی وجہ سے امریکہ میں کرپشن سے کمائی گئی دولت کا حجم ہی اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی امریکی نظام کو دھوکہ دے کر دولت باہر لے بھی جائے تو امریکی اپنی عالمی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر ان ممالک میں چھپائی گئی دولت کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتا ہے۔2008ء میں امریکہ نے سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو سوئس بنکوں پر عالمی تجارت پر پابندی لگانے کی دھمکی دے کر نہ 4500 امریکی شہریوں کے سوئس بنکوں میں کھاتوں کی تفصیلات حاصل کر لی تھیں بلکہ 800 ملین ڈالر جرمانہ بھی وصول کیا تھا اس کے بعد ہی سوئس بنکوں نے بنکنگ سیکریسی کے قوانین میں تبدیلی کی تھی اور اب دنیا کا کوئی بھی ملک سوئٹزرلینڈ سے ڈیل ٹیکس ٹریٹی کے تحت معلومات کا تبادلے کر سکتا ہے۔ پاکستان ایسے ممالک جہاں قانون کی گرفت کمزور ہو ان ممالک کے لئے معلومات کا حصول ہی کافی نہیں ہو تا کیونکہ اگر پاکستان کو اپنے شہریوں کے غیر ممالک میں بنک اکائونٹس کے بارے میں معلومات فراہم کر بھی دی جائیں تب بھی پاکستان کو ایک ایک شہری کے بنک میں پڑی دولت کے متعلق یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ دولت پاکستان کا قومی خزانہ چوری کر کے یا پھر ٹیکس چوری اور غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہے۔ جہاں تک پاکستانیوں کے غیر ملکی بنکوں میں پڑے اربوں ڈالرکی معلومات کا تعلق ہے تو نہ صرف عمران خان 2013ء سے سوئس بنکوں میں پاکستان کی چوری کی ہوئی دولت کی دوھائی دے رہے ہیں بلکہ سابق حکومت کے وزیر خزانہ نے اسمبلی میں سوئس بنکوں میں 200ارب ڈالر واپس لانے کی بات بھی کی تھی مگر بقول شاعر : آئے عشاق، گئے وعدہء فردا لے کر اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر اسحاق ڈار نے سوئس بنکوں سے 200 ارب ڈالر واپس تو کیا لانے تھے الٹا 2017ء میں پاکستانی اشرافیہ کی طرف سے 430 ارب روپے کی دبئی میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا اور موصوف کے دبئی میں پلازے اور ملکیتوں کا نہ صرف چرچا ہوا بلکہ اسحق ڈار آج پاکستان سے فرار ہو کر ان جائیدادوں کے بل بوتے پر ہی مزے اڑا رہے ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں ہی پاکستانی اشرافیہ نے دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی اور پاکستانیوں کی سرمایہ کاری میں 8 فیصد بھی اضافہ ہوا۔ عمران خان گزشتہ ایک دھائی سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوے کر رہے ہیں بلاشبہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چوری کی دولت کا پتہ لگانے کے لئے ایسٹ ریکوری یونٹ بھی بنایا جو ملک سے چرائی گئی دولت کا سراغ لگانے میں مصروف ہے۔9/11کے بعد غیر قانونی ترسیلات زر کو روکنے کے لئے فیفٹ کے اقدامات کے بعد سرمائے کی غیر قانونی منتقلی مشکل بھی ہوئی ہے اور ورلڈ بنک میں بھی سٹولن ریکوری انیشی اٹیوجیسے ادارے بھی بڑے پیمانے پر ہوئی کرپشن کے خلاف مختلف ممالک کی مدد کر رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سینئر سرکاری اہلکاروں اور ان کے مددگاروں کی جانب سے عوامی اثاثے لوٹنے کی بات ہو تو ورلڈ بنک کا سٹولن ریکوری اینشی ایٹو متاثرہ ممالک کی مدد کرتا ہے مگر اس کے لئے حکومتوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ بیرون ملک منتقل کیا گیا سرمایہ کرپشن سے کمایا گیا اگر دعویدار ملک تمام شواہد فراہم کرتا ہے تب بھی لوٹی ہوئی دولت کو واپس آنے میں چھ سے سات سال عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مگر اس حوالے سے حکومت اقدامات پر شوق بہرائچی کا یہ شعر صادق آتا ہے : ہو رہا ہے جس قدر بھی شوقء صاحب انسداد اتنی ہی کٹتی ہے رشوت مولی گاجر کی طرح حکومت احتساب کیلئے جتنی بھی کوشش کرے پاکستان میں قانون کی عملداری اور عدالتی نظام کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سابق صدر جنرل مشرف اپنے دور میں دیے گئے این آر او کا جواز بھی یہ بتاتے رہے کہ انکے دور میں احتساب شروع ہوا مقدمات بھی بنائے گئے مگر عدالتوں میں 8سال تک مقدمات چلنے کے باوجود فیصلے نہیں آ رہے تھے الٹا حکومتی سرمایہ اور عدالتوں کا وقت ضائع ہو رہا تھا اس لئے ان کو لوٹ مار کرنے والوں کو این آر او دینا پڑا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم کا خطاب بجا ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ 7کھرب ڈالر امیر ممالک میں منتقل نہ ہوں تو ترقی پذیر ممالک کے عوام کی غربت دور کی جا سکتی ہے پاکستان بھی لوٹی دولت واپس لا کر معاشی خوشحالی کی جانب بڑھ سکتا ہے مگر چوری کی ہوئی دولت واپس لانے کے ساتھ چوری کے عمل کو روکنا ہو گا جو ملک میں قانون کی عملداری اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں اور یہ کام حکومت کی خلوص نیت کے بغیر ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت ہر روز اپوزیشن کے چوری اور لوٹ مار کے قصے تو عوام کو ازبر کروا رہی ہے مگر ابھی تک چوری روکنے کے لئے اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئے قانون سازی تو دور کی بات موثر حکمت عملی بھی واضح نہیں کر سکی۔