ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد اب کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر کاری ضرب لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جہاں ابھی حال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندی کو قومی زبان قرار دینے کا عندیہ دیا، وہیں دوسری طرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند عہدیداروں نے ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ علاقائی زبانوں کا اسکرپٹ یعنی رسم الخط دیوناگری یعنی ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشئر) اور اردو زبانیں آتی ہیں، جو فارسی۔عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنے کی مہم تو کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حال ہی میں بی جے پی کے لیڈروں ، بشمول دہلی میں مقیم چند کشمیر پنڈت گروپوں نے اسکو مہمیز عطا کی ہے۔ بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دووال تو عرصہ سے کشمیر کو سیاسی کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں۔ چند برس قبل حیدر آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیاء میں مضمر ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا جسکے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کیلئے صدیوں سے قابض طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اسکو اسکی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی کیساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ ایک منصوبے کے تحت کشمیر کی 647سالہ مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے ان چھ صدیوں میں کشمیری مسلم سلاطین کا دور تو صرف 247سالوں تک ہی محیط تھا، باقی وقت تو بیرونی حکمرانوں نے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے حکومت کی ہے۔ کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار 2003ء اور پھر 2016 ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی۔ مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت رخ اپنا کر اسکو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اسوقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے 2003ء میں تجویز دی تھی کہ کشمیر زبان کیلئے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کیلئے ایوارڈ وغیرہ تفویض کئے جائیں۔ ان کے مطابق کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائیگا۔ سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم پھر کشمیری زبان پر ہی کیوں؟ وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے تیسبر سوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اسلئے انکی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں بہر حال مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرالیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے 600برسوں سے وجود میں آیا کشمیر زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائیگا۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو اب قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری زبان میں 16حروف علت یا واولز او ر 35حروف صحیح ہیںنیز چھ ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔ مودی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دینے کیلئے ایک یاداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں1500سے 2000سال قدیم ہوں۔ اسکے علاوہ اسکا ادب قیمتی ورثہ کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اسکا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بلکل فٹ بیٹھتی تھی، اسلئے خیال تھا کہ یہ عرضداشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائیگی۔ عرضداشت میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے سورس بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ خیر اس عرضداشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیئے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کیلئے اسکا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کے فائدے یہ ہیں کہ ہر سال دو اہم ایوارڈ ان کے فروغ اور ان کے اسکالروں کو دئے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کیلئے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونیورسٹیز میں چیرز کو منظوری دینا شامل ہے۔