بڑائی اور کبریائی رب ذوالجلال کے لئے ہے اور بندوں کے لئے کیا ہے؟ بندوں کے لئے عاجزی‘ انکساری اور ہمدردی و غمخواری ہے۔ جناب عمران خان نے برسر اقتدار آنے سے پہلے ایک بڑا بول یہ بولا تھا کہ میں خودکشی کر لوں گا مگر کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جائوں گا۔ اللہ نہ کرے وہ کبھی خودکشی کریں۔ اللہ انہیں زندہ و سلامت رکھے مگر اپنے بڑے بول کا خمیازہ وہ خود بھی بھگت رہے ہیں اور ساری قوم بھی بھگت رہی ہے۔ اس سے زیادہ توہین آمیز سلوک کیا ہو گا کہ آئی ایم ایف اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں یہ تاثر دے کہ ان کے ساتھ مزید بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بہرحال آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب کرنے کے لئے اس ادارے کی پسندیدہ شخصیت عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر کی حیثیت سے وزارت خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ جناب وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے ہمارا احترام کا پرانا رشتہ ہے دو روز پہلے ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ پاکستان میں وہی سیاست دان مضبوط سمجھا جاتا ہے جس کا اپنا حلقہ انتخاب ہو ڈاکٹر صاحبہ کا مضبوط حلقہ انتخاب سیالکوٹ ہے۔میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے عرض کیا کہ کیا آپ عمران کو عوام کا قصہ درد سناتی ہیں انہوں نے کہا کہ میرا تو شب و روز حلقے کے عوام سے رابطہ رہتا ہے اورسیاسی طبیب کی حیثیت سے میرا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ عام آدمی کتنا پریشان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خود عمران خان مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کے دکھ درد کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ جناب علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ مصیبت میں گھبراہٹ اس سے بڑی آفت ہوتی ہے۔ جناب وزیر اعظم کے شب و روز بدلتے اقدامات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سٹیٹ کرافٹ کی باریکیوں بالخصوص معیشت کی نزاکتوں کے بارے میں زیادہ علم نہ تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ پی ٹی آئی کی جس سینکڑوں اصحاب علم و ہنر کی ٹیم کا تذکرہ کیا کرتے تھے وہ وقت آنے پر کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ عبدالحفیظ شیخ سے بھی زیادہ ساری قوم کو حیرت سٹیٹ بنک کے نئے گورنر باقر رضا کی تقرری پر ہوئی ہے۔ باقر رضا کا پاکستان سے اتنا ہی تعلق ثابت ہوا کہ کبھی شاید وہ ایچی سن کالج میں پڑھتے تھے پھر انہوں نے برکلے یونیورسٹی سے اقتصادیادت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ گزشتہ 16برس سے وہ آئی ایم ایف میں کلیدی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں دو سال وہ ورلڈ بنک میں بھی رہے۔ ان کی شہرت انٹرنیشنل اکناک ہٹ مین کی ہے وہ فلپائن‘ رومانیہ‘ بلغاریہ وغیرہ میں آئی ایم ایف کے مفادات کے تحفظ کیلئے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر باقر رضا آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم ہیں۔ پاکستان آنے سے ایک روز پہلے تک وہ مصر میں آئی ایم ایف کی نمائندگی کر رہے تھے۔ گویا آئی ایم ایف کی طرف سے ان کی نئی پوسٹنگ پاکستان میں ہوئی ہے۔ڈاکٹر باقر آئی ایم ایف کا جو بیل آئوٹ پیکیج لے کر 2001ئمیں مصر گئے تھے اس سے قبل وہاں ایک امریکی ڈالر کے بدلے سات مصری پائونڈ ملا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک ڈالر کے عوض 17مصری پائونڈ ملتے ہیں۔ روٹی کی قیمت دگنی ہو چکی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں 110فیصد اضافہ ہو چکا ہے گیس کی قیمتیں اتنی بڑھیں کہ مصری عوام بلبلا اٹھے تو جنرل السیسی کو یہ اضافہ واپس لینا پڑا۔ حکمرانوں کی من مانیوں اور جمہوریت کو بزورشمشیر ہٹا کر مسلط ہونے والی فوجی آمریت نے مصر کو یہ دن دکھایا ہے۔ جناب ڈاکٹر باقر رضا جہاں کہیں بھی گئے وہ وہاں آئی ایم ایف کا ایجنڈا تو نافذ کرتے رہے کسی ملک نے انہیں اپنے خزانے کا محافظ نہیں بنایا۔ یہ اعزاز جناب عمران خان کی حکومت کے حصے میں آیا ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے اس حاضر سروس نمائندے کے سپرد پاکستانی خزانے کی ساری کنجیاں کر دی ہیں اس پوسٹنگ سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ آئی ایم ایف نے عملاً پاکستانی معیشت کا مکمل چارج خود سنبھال لیا ہے۔ جناب عمران خان کا بحیثیت وزیر اعظم یہ حق ہے کہ انہیں کسی لیت و لعل کے بغیر سچ سچ بات بتائی جائے۔ خان صاحب سے پوچھنے والی بات یہ ہے کہ کیا عبدالحفیظ شیخ کی مشیر خزانہ تعیناتی سے پہلے کبھی ان کی شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں وہ اندازہ لگاتے کہ شیخ صاحب کی معاشی مہارت خان صاحب کے اقتصادی وژن کی تکمیل کے لئے کتنی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر باقر رضا کے سپرد قومی خزانے کی کنجیاں کرنے سے پہلے کیا انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا انٹرویوکیا نیز کیا ڈاکٹر صاحب آئی ایم ایف کی ملازمت سے مستعفی ہو جائیں گے یا حاضر سروس ہی رہیں گے۔ بعض عالمی میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے 8بلین ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے مذاکرات آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں۔ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی شرح نمو گزشتہ برس 5فیصد تھی جو اس سال 3فیصد ہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان میں نومبر 2013ء کے بعد افراط زر میں تقریباً 10فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ خاص طور پر انرجی اور اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان اور چین کے باہمی اقتصادی تعاون اور گزشتہ اڑھائی برس کے دوران چین سے لئے گئے کمرشل قرضے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کو کہا ہے۔ دو روز پہلے کابینہ کی منظوری کے بغیر ہی پٹرول کی قیمت میں 9.42روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس اضافے سے پاکستان میں ہر شے مہنگی ہو جائے گی۔ یہ مہنگائی پاکستان کے غریب اور نیم متوسط اور متوسط طبقے کے لئے ہوشربا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل میں جب بجٹ میں مزید ٹیکس لگیں گے اور بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتیں مزید بڑھیں گی نیز عمران خان کی کمٹمنٹ کے برعکس جب پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل ملز وغیرہ کوا پرائیوٹائز کیا جائے گا اور بے روزگاری مزیدبڑھے گی تو پاکستان سے سفید پوش طبقہ معدوم ہو جائے اور خط غربت سے نیچے جانے والوں کی تعداد 50سے 60فیصد تک ہو جائے گی۔ تب عوام کی چیخیں ساتویں آسمان تک جائیں گی۔ جناب عمران خان عارضی طور پر ہی سہی پندار کا صنم کدہ ویران کر کے اقتصادی ابتری کی ساری کہانی پارلیمنٹ ‘ پبلک اور میڈیا کے سامنے رکھیں اور آئی ایم ایف کی دانش سے نہیں اجتماعی دانش سے بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھالا اور عوام کو ریلیف دیں۔ یاد رکھیں برائی اور کبریاتی اللہ کے لئے اور بندوں کے لئے عاجزی اور ہمدردی و غمخواری ہے۔