سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد ایک ہی مذہب بلکہ ایک ہی رنگ و نسل کے اربوں افراد کو اپنے مفادات کے لئے نیشن اسٹیٹ میں بدل دیا گیا۔ساری عرب دنیا اس حقیقت کا سنگین اظہار ہے۔پھر کردوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان سے سو سال قبل کیا گیا نسلی بنیاد پہ نیشن اسٹیٹ کا وعدہ پورا نہ کیا جائے اور انہیں صلاح الدین ایوبی کا حوالہ دے کر بہلانے کی کوشش کی جائے؟ کردوں کے ساتھ عالمی طاقتوں کی خود غرضی اور دھوکہ دہی کی سو سالہ تاریخ ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب خلافت عثمانیہ کو معاہدہ سیورس کے تحت یونان، روس ، فرانس اور برطانیہ نے کاٹ پیٹ کر عربوں میں تقسیم کر دیا تو کردوں کو بھی آزاد کردستان کا لالی پاپ تھما دیا گیا۔یہ وعدہ وفا ہونے کے لئے تھا ہی نہیں کیونکہ کرد ایسی جنگجو قوم تھے جنہیں اس حساس خطے میں عالمی قوتوں نے آئندہ ان ہی نو آزاد شدہ عرب ریاستوں کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کرنا تھا۔چنانچہ کردوں سے دغا بازی کی گئی اور انہیں ایران، عراق، شام اور ترکی میں مسلم حکمرانوں کے درمیان کسی بارودی سرنگ کی طرح بچھا دیا گیا۔ حال ہی میں شام عراق ایران اور ترکی سے ملحق کرد اکثریتی علاقے سے اچانک امریکی انخلا کے بعد ترکی نے دھمکی دی کہ اگر کردوں کو کھلا چھوڑا گیا تو وہ ترکی میں موجود پناہ گزینوں کو یورپ میں دھکیل دے گا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے سیرین نیشنل آرمی کے ساتھ مل کر ترکی سے ملحق کرد پٹی پہ آپریشن پیس اسپرنگ شروع کردیا تاکہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد کردوں کو کھلی چھٹی نہ مل جائے۔ سیرین نیشنل آرمی،ترکی کی حمایت یافتہ بشار مخالف حزب اختلاف کے اتحاد سیرین نیشنل کولیشن کا مسلح گروپ ہے ۔یہ حزب مخالف اتحاد بشار حکومت کے خلاف 2012 ء میں قطر میں ترتیب دیا گیا تھا۔اس کا ہیڈ کوارٹر استنبول میں ہے اور اس نے شمالی شام کے شہر اعزاز میں باقاعدہ عبوری حکومت بنا رکھی ہے جس کی سات وزارتوں پہ مشتمل ایک عدد کابینہ بھی ہے۔سیرین نیشنل آرمی شامی عربوں، کردوں اور ان ترکوں پہ مشتمل ہے جو خلافت عثمانیہ کے دور میں اناطولیہ سے ہجرت کر کے شام آگئے تھے۔یہ ترکی کے آپریشن شاخ زیتون میں بھی اس کی ہم رکاب رہی جو گزشتہ برس کے اوائل میں عفرین،اعزاز اور حلب کے شمال میں کیا گیا۔یہ درحقیقت کردوں کی شمالی شام میں مزاحمت کے نتیجے میں قائم ہونے والی عبوری حکومت روجاوہ کے خلاف ترکی کا جوابی آپریشن تھا جو کردوں کو کسی صورت شمالی شام میں مضبوط ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ روجاوہ حکومت جو مغربی کردستان بھی کہلاتی تھی، حسکہ ، رقہ، عفرین،جزیرہ،حلب اور فرات کے علاقوں پہ مشتمل تھی اور 2012 ء میں ہی قائم ہوگئی تھی۔ اس کی بنیاد2004 ء میں قملیش میں عربوں اور کردوں کے درمیان ایک فٹ بال میچ کے دوران پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کے دورا ن ہی پڑ گئی تھی۔ عرب تماش بینوں نے صدام حسین کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں جس نے اسی کی دہائی میں کردوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس وقت ترکی ایران شام اور عراق میں کرد اکثریت پہ مشتمل علاقہ تقریبا تیس ملین کردوں پہ مشتمل ہے۔ان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے اور انہیں بجا طور پہ دنیا کی سب سے بڑی بے ریاست قوم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ صرف عراق میں ان کی باقاعدہ حکومت عراقی کردستان کے نام سے پائی جاتی ہے جو نوے کی دہائی میں صدام حسین کے کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت کے نتیجے میں قائم ہوئی۔اس کی وجہ ان کی کردوں سے محبت نہیں تھی بلکہ اس پورے علاقے میں تیل کی موجودگی تھی لہذہ انہیں صدام حسین کے خلاف استعمال کیا گیا۔تیل کے یہ ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ اگر عراقی کردستان کوئی آزاد ملک ہوتا تو تیل کی پیداوار میں دسویں نمبر پہ ہوتا۔ عراقی آئین کے تحت عراق میں وفاقی اکائیاں اپنے مقامی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہیں جبکہ بین الاقوامی معاملات مرکزی حکومت کے سپرد ہوتے ہیں۔ اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر کردستان کے صدر نوشیرواں برزانی نے امریکی اور چینی کمپنیوں کو دل کھول کر تیل بیچا۔یہی نہیں بلکہ اسرائیل درامد کردہ تیل کا تین چوتھائی اسی عراقی کردستان سے حاصل کرتا ہے جو ترکی کی بندرگاہ چیحان کے ذریعے اسرائیل پہنچایا جاتا ہے ۔کرکوک جو تیل کی پیدوارا کا سب سے بڑا علاقہ تھا، ایک عرصہ داعش کی دسترس میں رہا اور اسے دہشت گرد قرار دینے والی دنیا ان ہی سے تیل خریدتی رہی۔ ان ہی کردوں کو عراق نے داعش کے خلاف استعمال کیا جنہوں نے داعش کو پسپا کیا لیکن ان سے قصور یہ ہوا کہ کرکوک کو ، جو کرد اکثریتی علاقہ ہے، کردستان میں شامل کرنے کی کوشش کی۔اس پہ عراق نے کاروائی کی اور کرکوک اور اس کے اطراف تیل کی تنصیبات کا علاقہ واپس تحویل میں لے لیا۔ یہی کام کردوں سے شام میں لیا گیا اور انہیں داعش کے خلاف امریکہ نے استعمال کیا۔ امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں بظاہر بشار الاسد کے خلاف کردوں کی تربیت کے لئے خطیر رقم سے سیرین ٹرین اینڈ اکویپ پروگرام شروع کیا گیا۔اس کا مقصد بظاہر بشار کی حکومت کا خاتمہ تھا لیکن درحقیقت یہ تیزی سے ابھرتی ہوئی داعش کے خلاف کردوں کو استعمال کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لئے کرد عسکری تنظیموں کو قطر، ترکی ، اردن اور سعودی عرب میں تربیت دی گئی۔ ترکی کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب امریکی آشیر باد سے کردوں نے داعش سے کوبانی واگزار کروایا اور اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کردوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ ترکی لیکن سانس روک کر بیٹھا رہا کیونکہ یہی اس کے مفاد میں تھا۔ اب جب کہ داعش شام میں بہت ہی تھوڑے علاقے تک محدود ہوگئی ہے ، ٹرمپ نے بھی دنیا بھر سے امریکی فوج کو نکالنے کی پالیسی کے تحت ہاتھ کھینچ لئے ۔کردوں کو ایک بار پھر دھوکا دیا گیا اور انہیں ترکی کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا۔ جس وقت امریکی ٹینک اس کرد پٹی سے نکل رہے تھے جہاں اب ترکی محفوظ پٹی بنانا چاہتا ہے تو کرد ان پہ انڈے اور ٹماٹر پھینک کر نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس سارے المیے پہ جب کرد مارے جارہے تھے، بے نیازی سے بس اتنا کہا کہ ہم نے کردوں کی حفاظت کا ذمہ نہیں لے رکھا البتہ ہمارے چند سو فوجی تیل کے ذخائر کی حفاظت کے لئے کرد علاقے میں موجود رہیں گے۔مجبوراً کردوں کو نسل کشی کے خوف سے اپنی حریف شامی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑ گیا ہے۔کردوں میں صدیوں سے ایک محاورہ مشہو رہے کہ ان کا پہاڑوں کے سوا کوئی دوست نہیں۔ اس کے باوجود وہ ہر بار دھوکا کھاتے رہے۔دوسری طرف ترکی شمالی شام کے کرد علاقے کو خالی کرکے تیس لاکھ شامیوں کو بسانے کا ارادہ رکھتا ہے جن کے سر پہ غالبا ًاسی دن کے لئے ہاتھ رکھا گیا تھا۔