قائد تحریک انصاف مانیں یا نہ مانیں یہ شعر ان پر صادق آتا ہے: ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر اگر کوئی ابہام محسوس کریں تو ’’ہوا‘‘کی جگہ ’’عوام‘‘ کر دیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ اس وقت تینوںمعاملات میں پی ٹی آئی کی حکومت چاروں شانے چت دکھائی دے رہی ہے۔ ٭کشمیر ٭ معیشت ٭ گورننس سیاست کو جناب عمران خان نے عدم برداشت اور معیشت کو عدم حکمت و مہارت سے بے حال کر چھوڑا ہے۔ تاہم اس وقت جس مسئلے پر ہر پاکستان‘ ہر کشمیری اور شدت احساس رکھنے والا ہر انسان فکر مند اور بیزار ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر ہر پاکستانی کے لئے فرض عین ہے فرض کفایہ نہیں۔ مگر اس فرض کو پاکستان میں صرف ایک سیاسی اور ایک ہی دینی جماعت پرجوش طریقے سے ادا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور وہ جماعت اسلامی ہے۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی پاکستان نے لاہور میں ایک عظیم الشان ریلی نکالی جس میں لاکھوں اگر مبالغہ ہو تو ہزارہا مردوزن نے پرجوش طریقے سے شرکت کی۔ ریلی سے ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جناب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ تو ہم پوچھتے ہیں کہ اگر جنگ مسئلے کا حل نہیں تو پھر اس کا حل کیاہے؟ انہوں نے آزادی کشمیر مارچ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کشمیری پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم گومگو کا شکار ہیں۔ جماعت اسلامی اس سے پہلے کراچی‘ پشاوراور دیگر کئی شہروں میں آزادی کشمیر مارچ کرچکی ہے۔ جناب سراج الحق شدت جذبات میں یہاں تک کہہ گئے کہ وزیر اعظم نے قومی وحدت پارہ پارہ کر دی ہے اور حکومت تنہا کھڑی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے عملی قدم نہ اٹھایا تو قوم کاہاتھ اور حکمرانوں کا گریبان ہو گا۔ ۔بلا شبہ جناب وزیر اعظم عمران خان نے 27ستمبر کو جنرل اسمبلی میں ایک ولولہ انگیز اور فکر انگیز تقریر کی۔ اس تقریر سے ساری قوم کو ایک ولولہ تازہ ملا انہیں یوں محسوس ہوا کہ وہاں جنرل اسمبلی میں ان کے جذبات و احساسات کی نہایت درست ترجمانی ہوئی ہے۔ اس تقریر کے نتیجے میں کوئی تبدیلی البتہ نہیں آئی۔ 80لاکھ کشمیری ابھی تک محصور ہیں لاک ڈائون نہیں ٹوٹا اور نہ ہی کرفیو اٹھایا گیا۔ تقریر کے بعد نہ کوئی نتیجہ سامنے آیا اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل علامہ اقبالؒ نے ایسے ہی مواقع کے لئے فرمایا تھا کہ ع غلامی سے بدتر ہے بے یقینی بے یقینی افراد میں ہو تو بے عملی وجود میں آتی ہے او اگر اقوام میں ہو تو مایوسی پیدا ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کی لیڈر شپ اس جان لیوا کیفیت سے دوچار ہو تو اسے انتہائی باعث تشویش سمجھا جاتا ہے آج جناب عمران خان اس بے یقینی کی گرفت میں ہیں۔ میں نے آزادکشمیر اسمبلی کے رکن جماعت اسلامی کے رہنما عبدالرشید ترابی کو مظفر آباد فون کیا تاکہ معلوم کروں کہ وہاں کیا صورت حال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل اسمبلی جانے سے پہلے جناب عمران خان نے آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی مشترکہ کانفرنس میں شرکت کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی امریکہ سے واپسی تک انتظار کریں اور کسی قسم کا کوئی قدم نہ اٹھائیں واپس آ کر کوئی متفقہ فیصلہ کریں گے۔ترابی صاحب نے کہا کہ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ امریکہ سے واپس آتے ہی جناب وزیر اعظم پاکستان حسب وعدہ آزاد کشمیر کی تمام جماعتوں کو اعتمادمیں لیں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ یہ ہمارے لئے نہ صرف باعث حیرت بلکہ باعث تشویش ہے کہ دس دن گزر جانے کے باوجود خان صاحب نے کسی پروگرام یا اگلے پلان کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس وقت آزاد کشمیر کے جواں اور مردوزن میں مقبوضہ کشمیر کے کشمیری بھائی بہنوں کے لئے بہت شدید جذبات ہیں۔ وہ ایل او سی کی طرف پیش قدمی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں یہ لوگ چکوٹھی تک گئے ہیں اور اس سے آگے انہیں پولیس اور فوج نے نہیں جانے دیا۔ بالخصوص نوجوانوں کے جذبات میں حدت بھی ہے اورشدت بھی وہ چاہتے ہیں کہ حکومتیں اپنی مصلحتوں سے کام لیتی رہیں مگر ہم سری نگر اور دوسرے کشمیری شہروں میں تڑپتے ہوئے مریضوں ‘ بھوک سے بلبلاتے بچوں‘ بھارتی فوج کے ہاتھ اغوا کردہ بچوں اور نوجوانوں کے غم میں نڈھال بوڑھوں کو ان کے حال پر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ترابی صاحب نے وہی سراج الحق صاحب والی بات کی کہ عمران خان جنگ نہیں چاہتے تو وہ بتائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ میں نے ترابی صاحب کی تازہ ترین گفتگو کا اس لئے قدرے تفصیل سے ذکر کیا تاکہ ہم سب کو اندازہ ہو سکے کہ اس وقت کشمیر کے محاذ پر کیا صورت حال ہے اور آزاد کشمیر کے عوام کس طرح سوچ رہے ہیں۔ سب سے اہم وہی سوال ہے کہ حکومت پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے؟ ابھی تک سوائے بے یقینی کے اور کوئی قدم سامنے نہیں آیا۔ حکومت گزشتہ دو تین ماہ کی کارروائی کا جائزہ لے اور سوچے کہ سفارتی اور بین الاقوامی محاذوں پر حکومت کو کیا کامیابی حاصل ہوئی۔ ہم تو انسانی حقوق کونسل میں حقوق کی پامالی کے خلاف باقاعدہ دائر کی جانے والی درخواست کے لئے 47میں سے 16ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے۔کشمیری اور عالمی تنظیموں کا کتنا حصہ ہے مگر انٹرنیشنل میڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور محصور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے نہایت زوروشور سے آواز اٹھائی ہے اور ابھی تک یہ صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے۔ پاکستانی قیادت کو سب سے پہلے بے یقینی کے حصار سے باہر آ کر اور پاکستانی و کشمیری سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر واضح لائحہ عمل دینا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو عالمی سطح پر دوست ممالک کے ساتھ رابطے تیز کر کے انہیں کشمیریوں کا محاصرہ ختم کرانے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ تیسرا نہایت اہم کام حکومت پاکستان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ یو این او پر واضح کرے کہ وہ یو این او چارٹر کے چیپٹر 7کے مطابق بھارت کے خلاف وہ سارے اقدامات اٹھائے جن کا اس بات میں ذکر ہے۔ ان میں سیاسی و اقتصادی پابندیاں بھی شامل ہیں اور اگر مذکورہ ملک انسانی حقوق کی پامالی اور قتل و غارت گری سے باز نہیں آتا تو پھروہاں یو این او کی افواج بھجوائی جاتی ہیں۔ اس اصول کے مطابق کشمیر میں اقوام متحدہ کی افواج فی الفور بھیجی جائیں۔ اقوام متحدہ پر یہ بھی واضح کیا جائے کہ کنٹرول لائن کے دوسری طرف آزاد کشمیر کے لوگوں میں اپنے بہن بھائیوں اور عزیزو اقارب پر ڈھائے جانے والے مظالم پر شدید ردعمل پایا جاتا ہے جس کا عملی اظہار ہو سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو قیامت کی اس گھڑی میں بھول جاتے ہیں تو ہم سے زیادہ بے درد کوئی کیا ہو گا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور عوام الناس کا یہ کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان بوجہ کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تو ٹھیک ہے مگر وہ ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالے اور ہمیں اپنے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی سے نہ روکے۔ جناب وزیر اعظم قوم منتظر ہےWhat Next?