بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس بار مذاکرات کی میز طالبان نے نہیں صدر ٹرمپ نے الٹ دی ہے اور طالبان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ دوسروں کی الٹی ہوئی میز سیدھی کیسے کی جاتی ہے۔ وہ اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ تو آئے ہی اس لئے تھے کہ کابل پہ قبضے کے خواہشمندوں کو جنہوں نے افغانستان کو اپنی ہوس ملک گیری میں جہنم بنا رکھا تھا ، باہر کا راستہ دکھا سکیں۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کوئی واشنگٹن جا بیٹھا اور کوئی ایران میں نظربندی کے دوران ریڈیو تہران پہ درس قران دیتا رہا ۔ جنہوں نے بہر صورت جہاد کو اوڑھنا بچھونا سمجھا انہوں نے ملا عمر کے ہاتھ پہ بیعت کے راستے میں انا کو آڑے نہ آنے دیا۔ مجاہد اعظم جلال الدین حقانی پورے شرح صدر کے ساتھ ملا عمر کے ساتھ رہے۔ اس مرد مجاہد نے زندگی کے اڑتالیس سال جہاد میں گزار دیئے اور اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ نفس مطمئنہ کی وہ قرآنی مثال بن گیا جس سے وہ راضی اور اس کا رب اس سے راضی۔ نائن الیون کے بعد طالبان کی پشت پہ کھڑے ہونے والا یہی ایک شخص تھا جس نے بیعت کی اہمیت کا سمجھا اور آخری سانس تک اس پہ قائم رہا۔ باقی تو وہ ہجرت کرنے والے پرندے تھے جو حالات نا موافق دیکھ کر محفوظ پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے رہے۔ اب طالبان کی اٹھارہ سالہ مزاحمت کو بار آور دیکھ کر ایک ایک کرکے انتخابی چھتریوں پہ آن کر بیٹھ رہے۔غالباً انہیں امید ہے کہ طالبان امریکہ مذاکرات امریکی خواہش کے مطابق طے پاجائیں گے اور ایک ایسا جمہوریہ افغانستان وجود میں آئے گا جہاں ہر پانچ سال بعد ملا عمر کے جانشین، سوویت روس کی باقیات اور امریکی پٹھو کابل حکومت کے کاسہ لیس ایک ہی انتخابی گھاٹ سے پانی پیئیں گے۔ کیا ہی دل خوش کن منظر ہوگا۔ اور عالمی ضمیر کو درکار بھی کیا تھا۔ خوامخواہ اٹھارہ سال آگ میں جو جھونک دیئے گئے۔یہ الگ بات ہے کہ اگر حساب لگایا جائے تو طالبان حملوں میں شہید ہونے والے شہریوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہے امریکی اور نیٹو افواج اور ان کے تعاون سے متحارب کابل حکومت نے پچھلے دس سالوں میں شہید کئے ہیں۔ اس سال جولائی تک تو یہ تناسب تقریبا دگنا ہوگیا ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ طالبان کے پاس گوریلاجنگ کے چھوٹے ہتھیار ہیں جن میں ٹینک شکن میزائل یا امریکی فوج سے چھینے گئے ہمووی یا وہ ہتھیار ہیں جو افغان فوجی انہیں فروخت کردیتے ہیں یا خاموشی سے ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ اسلحہ بہر حال زمینی ہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ سمیت نیٹو، افغان حکومت، پرائیویٹ عسکری کمپنیوں اور دیگر فورسز جن میںا سرائیلی کمپنیاں بھی شامل ہیں ہر طرح کے جدید فضائی اور زمینی اسلحہ سے لیس ہیں۔ اسی افغانستان پہ بموں کی ماں نامی بم بھی امریکہ ہی نے استعمال کیا جس میں بچوں سمیت کئی سو افغان شہری شہید ہوئے۔یہی وہ نکتہ ہے جو صدر ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کے اس بہانے کوحیلہ محض بنا دیتا ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ مذاکرات طالبان کی طرف سے کابل دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے پہ معطل کئے جارہے ہیں۔ ان کے اس دعوی کا جواب ذبیح اللہ مجاہد اور منصور حقانی روزانہ کی بنیاد پہ ہونے والے امریکی حملوں میں جاں بحق ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد نشر کرکے دے رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے دوران مذاکرات نہ تو طالبان نے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ کوئی حملہ نہیں کریں گے نہ ہی امریکی نے ایسا کوئی عہد باندھا تھا۔ جب جنگ بندی ہوئی ہی نہیں ہے تو جنگ بندی ہو کیسے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مذاکرات کے نویں دور تک آنے سے قبل بھی دونوں اطراف سے یہ حملے ہوتے رہے ہیںاور اس میں معصوم شہری جان سے جاتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات کی معطلی کا اعلان اتنا اہم نہیں ہے۔ وہ شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے دوران کئی بار ایسے موڈدکھا چکے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ اب بھی وہ یہ کریں گے۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میڈیا سے چھپ چھپا کر طالبان رہنماوں سے ان کی یہ ملاقات کیمپ ڈیوڈ میں طے پائی تھی۔کیمپ ڈیوڈ میں دنیا بھر کے اہم ترین معاہدے ہوتے رہے ہیں اور امریکی صدور نے اہم ریاستی رہنمائوں سے تمام بڑی ملا قاتیں اسی مقام پہ کی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے طالبان سے ملاقات کے لئے اسی مقام کا انتخاب کیوں کیا۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ امریکہ نے طالبان کو سرکاری طور پہ عالمی رہنما تسلیم کرلیا ہے؟اس بات پہ افغان حکومت کا ہی نہیں پینٹا گون کا جز بز ہونا بھی بنتا ہے جو صدر ٹرمپ کو اس جنجا ل سے نکلنے دینا نہیں چاہتے۔ اسی جنگ کے نام پہ تو وہ وائٹ ہاوس سے بھاری بجٹ منظور کرواتی ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار پینٹا گون کا آڈٹ کروانے کی جرات بھی صدر ٹرمپ نے ہی کی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ اس واشنگ مشین سے پنٹا گون اور کچھ جرنیل دھل دھلا کر نکل آئے تھے لیکن ہر بار ایسا ہو یہ ضروری نہیں۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلی امریکی لایعنی جنگوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اس بار جب طالبان کے ساتھ مزاکرات آخری دموں پہ تھے کس نے صدر ٹرمپ کو میز الٹنے پہ اکسایا ہے یہ سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ صیہونی لابی ہے جو فی الحال ٹرمپ کو افغانستان میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل دفاع امریکہ کی مد میں بھاری امداد وصول کرتا ہے۔ اس کی پرائیویٹ عسکری کمپنیوں میں نتن یاہو کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اسے طالبان کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر خود باہر نکل جائے ۔اس سارے قصے میں ،یعنی مذاکرات نہ ہونے میں سراسر نقصان امریکہ کا ہے اور یہی بات طالبان وفد نے کہی ہے کہ دیکھ لیں ہمارا کیا جاتا ہے ہم مزید اٹھارہ سال لڑ لیں گے۔ آپ کا کیا ہوگا جناب عالی۔ اور یہی سچ بھی ہے۔ صدرٹرمپ کی طرف سے مذاکرات معطل ہونے کا اعلان کرنے کی دیر تھی کہ افغانستان بھر سے طالبان کی کامیاب کاروائیوں کے خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں جیسے اس اعلان ہی کی دیر ہو۔ دیر بہرحال نہیں ہوئی ہے۔ اگر صدر ٹرمپ مذاکرات معطلی کو دباو ڈالنے والے کسی ہتھیار کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انتہائی حماقت کا ثبوت دے رہے ہیں کیونکہ طالبان نہ شمالی کوریا ہیں نہ ایران۔ مذکورہ دونوں ملکوں کو پابندیاں حسب منشا معاہدوں پہ اب تک مجبور نہ کرسکیں تو طالبان کو کون مجبور کرسکتا ہے ان کے پاس نہ ڈولتی ڈگمگاتی حکومت ہے نہ پابندیوں کا شکار کمزور معیشت نہ مہنگائی میں پستے عوام۔وہ تو ہر حال میں فاتح ہیں۔وہ جن کی پشت پہ خدا کے سوا کوئی نہ ہو وہ ہر حال میں فاتح ہی رہتے ہیں۔