قرار کسے آئے‘ وہ بے چارے جن کا کاروبار حیات اور سیاست کا دھندہ پیرائے مال سے جواں رہتا ہے۔ دل مضطر کو سر بازار لئے ہوئے ہیں کہ کوئی خرید لے نہ سلیقے کا تاجر میسر آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی خیریت معلوم کرنے والا مزاج پرسی کی رسم دلبری ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اب شیخ سیاست اوزار سازش کندھے پر لٹکائے کوچہ حسرت میں کھڑے بے دست و پا نظر آتے ہیں۔ کتنے ہی جفادری میں جو شرافت و عصمت کا بھیس بدلے اس قوم کے سادہ لوح شہریوں کو ہر موڑ پر چکمہ دینے کا برا فعل کرتے رہتے ہیں اور ان مکاران بلاخیز نے اپنے اردگرد پرانے مداری جمع کر رکھے ہیں۔ قوم کو دین‘ ملک اور قومی مفادات کے نام پر طرح طرح کی گولیاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اور قوم کے سادہ لوح افراد کچھ ایسی لت کا شکار ہیں کہ : ہمہ آھواں صحرا سرخود نیادہ برکف اپنی ذلت کو دعوت دیتے ہوئے ان لوگوں کی پذیرائی پر آمادہ رہتے ہیں۔ یہ غریب ‘ مجبور عوام‘ یہ ان سیاسی گرگان قدیم کو بھی معصوم ہی جانتے ہیں۔ ان کا کوئی پاپی بھی مر جائے تو آنسو بھی بے چارے غریب ہی بہاتے ہیں۔بڑی مشکل سے تبدیلی آئی ہے‘ لیکن اقتداری نشے میں چور جب بدن ٹوٹتا پاتے ہیں تو وہ آمادہ یہ تخریب ہوتے ہیں کہ ہم نظام کو تلپٹ کر دیں گے۔ ضابطہ ‘ قاعدہ‘ اخلاق ان کے ہاں متہمل اور بے معنی لفظ ہیں۔ ماضی کی آلودہ گناہ زندگی کو اپنا پیدائشی حق بنا کر قلمزد کرنے کی بات کرتے ہیں۔کوئی تنقید بھی کرے تو کرائے کے چالو زبان ان کی شرافت اور استحقاق کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کلثوم نواز رہی ملک عدم ہوئیں تو مشہور اینکر حامد میر نے 11ستمبر 2018ء کو 8بجے شام ایک تعزیتی پروگرام میں کچھ باتیں اور یادداشتیں اپنے ناظرین کو سنائیں‘ ان میں ایک اہم بات یہ بتائی کلثوم نواز ملکی اہم معاملات کے فیصلوں میں جناب نواز شریف کو فیصلہ کن مشورے دیا کرتی تھیں۔ ان میں ایک اہم مشورہ یا سفارش یہ بھی تھی کہ آنجہانی عاصمہ جہانگیر کی خواہشات کو ہمیشہ حکم کا درجہ دیا جائے۔ افسوس ناک مروت کا یہ منظر بھی چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان میں لغو بات اور مذہبی دل آزادی کے کھلاڑی بلاگرز کو ملک سے فرار کروانے میں بیگم کلثوم نے ہی اپنی مشاورتی قوت کو استعمال کیا تھا۔ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے کسی بھی مقام اور کسی ان لوگوں کے لیے باعث ندامت نہ ہوا۔ ایک بڑے بے فکر سیکولر ذہن بیرسٹر ظفر اللہ نے بھی اعتراف کیا کہ ہاں ان بلاگرز کو ہم نے فرار کروایا تھا۔ طاقت کے نشہ اور ہٹ دھرمی کی خوبیر دین اور ملک کو قربان کرنا ان کے نزدیک اقتدار کا تمغہ قوت ہے۔ ان ملائوں پر جو بے دین حکمرانوں کے ٹکڑوں کو رزق سماوی سمجھ کر عطیہ خاص گردانتے ہیں اپنے دین اور ضمیر کو حکمرانوں کے قصیروں میں پرو کر نذر کرتے ہیں۔ اپنے سیاہ کارناموں کو نجات وطن کا راستہ بناتے ہیں۔ ان لوگوں کا ایک صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ پنجاب اسمبلی میں نعت رسول عربی ﷺ پر پابندی لگوانے کی مہم میں اپنی طاقت اور اختیار کو استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا وہ تو بھلا ہو عزیزی طاہر ہندلی اور ثناء اللہ مستی خیل کا کہ جنہوں نے اپنی ایمانی قوت اور عشق رسولﷺ کے سہارے سے ان متکبر اور فرعون مزاج لوگوں کی مذموم کاوشوں کو بری طرح سے ناکام کر دیا مگر یہ وزیر خاص ہر شرارت کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ چار بے گناہ مرد و زن ماڈل ٹائون میں اس وزیر قانون کی لاقانونیت کی شر انگیز مہم کا شکار ہوئے۔ اس سیاہ یوم قتل میں اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ حزب اختلاف نے احتجاج کیا تو یہ مست کرسی مخمور کیف میں گویا ہوئے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ ذرا مزہ دکھانے کی مشق ہو رہی ہے۔ بدمستوں کی انتہا کا سنگ میل بھی نظر نہیں آتا ۔ ایمان بے ضمیر سے تہی دامن ایک دن دینی‘ آئینی ‘ ملی مرتدین کو دائرہ اسلام میں فرار دے رہے تھے۔ آنکھ کی شرم تو ایک اخلاقی تقاضے ہے مگر ایمان کی شرم دین دھرم کا تقاضا ہے۔ اب ایسی باتیں ان کے نزدیک دقیانوست ہے پاکستان اول آخر اسلام کی امانت ہے۔ بپھرے مزاج لوگوں نے مسلم لیگ کی چھتری تلے ایسے ایسے اول فول بکے کہ رہے نام خدا کا۔ ایک وزیر نے تب وہ اطلاعات و نشریات کے منصب جلیلہ پر براجمان تھے۔ پانچ وقت کی ماز جو خالص اسلامی عبادت ہے اور مساجد اس عبادت کا مرکز اہم ہے ان وزیر صاحب نے مراکز دینیہ کو اپنی دانست گمراہ میں جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دیا۔ نہ کسی نے ان یک سرزنش کی اور نہ ہی ان سے توبہ کرنے کو کہا۔ تو یہ کرنے کے لیے تو علماء ہی کو اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ لیکن علماء تو خود برائے خوشنودی سرکار اپنی زبانی فطرت کو وقف کر رکھتے ہیں اور قصیدے کو ہیر پھیر کر اس کا قبلہ و مقصود فراعنہ وقت کی جانب کرتے رہتے ہیں۔ قارئین۔ چور ڈاکو کا لفظ اور اس کے معنی بچے بچے کو سمجھ آتا ہے لیکن چور ڈاکوئوں کے دائرہ ‘ واردات کی وسعت کا اندازہ ابھی تک ارباب دل و عقد کو بھی نہیں ہوا اس صفائی سے خزانہ لوٹا ہے کہ چہرے کی معصومانہ ادائیں ابھی تک قوم کو بے ہوش کئے ہوئے ہیں۔ روز تقریر صفائی کو قند مکرر کے طور پر عوام کو بتاتے ہیں اور چور پکارے چور کی حکایت کو اپنا دستور صفائی بنا کر قوم پر بھر پور حملہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔روپے کی ریل پیل ہے قومی خزانے سے 53ارب روپے اپنی تصویری مہم کے اشتہارات پر خرچ کر دیے اس کا ذکر یا اس کی وضاحت کبھی نہیں کرتے۔ دوستوں اور حلقہ نشین وزراء کو اتنا نوازا ہے کہ عوام کے خزانے میں پوری طرح صفائی نظر آتی ہے اپنی صفائی کے لیے ایک میڈیا گروپ برائے نیک نامی کرائے پر رکھ چھوڑا ہے وہاں اندھا دھند تقریر جھاڑی جاتی ہیں کہ قائد اعظم ثانی کو مانو‘ پہچانو۔ قائد اعظم کی عظمت ‘ہمت‘ خلوص اور ملت پر فدائیت کے جذبات کا موازانہ ایسے دھنوار سے کیا جاتا ہے جو لذت کام و دھن کے لیے قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر نصف کرتا ہے۔ قومی اداروں اور قومی ادھان کی امانت کو اپنی پدرانہ وراثت بنانے کا کھیل کھیلتا ہے اور وہ اپنی اس راج ہٹ دھرمی میں اتنا قوی ہے کہ دشمن کے نیتائوں کو اپنے دل تک بٹھاتا ہے۔ وہ ہندو نریندر پاکستان کو جتنا چاہے کوس لے‘ لیکن ان کی زبان کو جنبش نہیں ہوتی ہے۔زبردستی ہے کہ ہمیں سر پر سوار رکھو۔ مسلمان‘ پاکستانی مسلمان پانی کے قطرے قطرے کو ترسیں۔ ہندو ہمیں آبی شکست سے نڈھال کر دیں۔ ہمارے پانی کے سب رستے مسدود کر دیں مگر ان کا ذوق سواری اسی طرح ہے۔ابھی تک کسی دن بھی ڈیمز بننے یا بنانے کی کوئی جج کی بات ان کی طرف سے نہیں سنی گئی ہے عدالت عظمیٰ نے پاکستانی آبی قلت کو دور کرنے کے لیے ایک دردمندانہ عملی تحریک شروع کی تو پرانے بھارتی ایجنٹوں کی نیند اڑ گئی پرایا کھایا مال پیٹ میں اچھلا تو یہ قوم بلبلا اٹھے۔ اور بے سروپا بیان داغنے لگے۔ عدالت عظمیٰ نے حب الوطنی کا تقاضا پورا کیا اور آبی ذخائر کی تعمیر کے ناقدین کو جھنجھوڑا کہ وطن کے آبی ذخائر کی تعمیر پر تنقید سزا کو دعوت دیتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک پرانے بھارتی خیر خواہ نے لاہرو میں اپنے ہمدرد کے گھر آ کر پھر اپنے دل کے پھپھولے چھوڑے کہ ہم ڈیمز نہیں بننے دیں اور ہم پر کوئی کارروائی کر کے تو دیکھے۔ خزانہ خالی‘ نیتیں خراب‘ دوستی بھارت سے‘ کلبھوشن طرز کے بیسیوں جاسوس ان کے کارخانوں کو چلاتے ہیں ان کی مہارت کے بہانے ملک کو جاسوسوں سے بھر دیا ہے۔ ہندوئوں کے تہواروں میں بخوشی شریک ہوتے ہیں اگر کسی مسلمان ولی بزرگ کے مزار پر کوئی تقریب ہو تو توحید و شرک کے پیمانے خانہ ساختہ مالی مزارعین سے پوچھتے ہیں۔ مرتدین کو اپنا بنائی بتاتے ہیں‘ ان کی خوشنودی کی خاطر آئین پر خانہ ساز مفتیان و صالحین خود پرست کی موجودگی میں شب خون مارا تو قوم بیدار ہو گئی مرتدین کی خوشنودی کو اپنی طاقت سے مضبوط کرتے رہے۔ ضد پر اڑے رہے ابھی تک تعداد چھپائی جا رہی ہے۔ نجانے کتنے غیور مومنین ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ان کی گولیوں سے جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ قوم کے دینی مجرم ہیں خدا و رسول ؐ کی بارگاہ میں ملت پر ناروا جبر و ستم کی گھٹڑی اٹھائے حاضر ہوں گے۔ ممتاز قادری کی شہادت اور شاتمہ الرسول آسیہ کا تقابلی مقدمہ اب عالم برزخ اور کائنات حشر میں کھلے گا۔ ہر شخص کی نیت ‘ قول‘ قلیم ‘حکیم اور رضا مندی کا کڑا حساب ہو گا یہاں کی عدالت اور یہاں کی جیلیں انسانوں سے وابستہ ہیں۔ وہاں کا حکم اور سزا براہ راست احکم الحاکمین کی عدالت سے تعلق رکھتی ہے لیمن الملک الیوم‘ للہ الواحد القھہار) آج کسی کا ملک و حکم ہے واحد قھار اللہ کا ہے مکرو وفرفی کے بے وزن الفاظ سہارا نہیں دیں گے حساب فطرت کا قاڑلہ بہت قریب تر ہو رہا ہے تخت الٹ گئے اب بدنی سزائیں قریب ہیں۔