ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا زبردست عروج ہوا کرتا تھا ۔فلم انڈسٹری کایہ عروج 1955ء سے شروع ہو کر 1995ء تک قائم رہا یہاں تک آخری ایکشن ہیرو سلطان راہی جب قتل ہوئے تو فلم انڈسٹری کو زوال آنا شروع ہو گیا ۔جبکہ اِس سے قبل لا لہ سدھیر جیسے خوبرو اور جنگجو ہیرو کا ڈنکا بجتا تھا ۔شاہ زماں خا ن آفریدی ، لالہ سدھیر کا آبائی تعلق درد آدم خیل سے تھا ۔لیکن قبائلی لڑائیوں کی وجہ سے اُن کے آبا ؤ اجداد لاہور ہجرت کر آئے اور یوں لالہ سدھیر بھی فلموں میں آگئے، یہ ایک سنہری دور تھا، ایک طرف سنتوش کمار اور دوسری طرف سدھیر مدمقابل ہوا کرتے تھے ۔پھر محمد علی ، ندیم اور وحید مرادجیسے پڑھے لکھے لوگوںکا دور آیا جبکہ پنجابی فلموں میں اکمل خان ہیرو ، مظہر شاہ اور ساون بٹ ولن کے کردار ادا کیا کرتے تھے ۔اِسی دور میں ایک نوجوان جو جھنگ کے سید خاندان کاچشم چراغ تھا اور ایچ سی این کالج لاہور سے تعلیم یافتہ تھے جو افضال احمد کے نام سے فلم انڈسٹری میں داخلہ ہوا، جب کہ افضال احمد اِس سے قبل 1967ء میں بننے و الے ٹی وی ڈراموں میں حصہ لے چکے تھا ،افضال احمد نے سب سے پہلا ڈرامہ اشفاق احمد خان کے لکھے ہوئے اِچ بروج لہور دے میں کام کا آغاز کیا تھا ۔لاہور جہاں پر علم ادب کا مرکز ہے، توو ہاں پر اِس شہر بے مثال میں فنون لطیفہ کا بھی بڑا چرچا رہا ہے، جب فلم کا وجود نہیں تھا تو تب معروف ہدایت کار انور کمال پاشا کے والد شجاع پاشااور اس طرح سے اُردو ادب کے انڈین شسپکپر آغا حشر کاشمیری جیسے نابغہ روز گار لوگوںکا ڈنکا بجتا تھا، شجاع پاشا تو صرف لاہور میں تھیڑ لگایا کرتے تھے جبکہ آغا حشر کاشمیری دلی ، بمبئی ،لاہور امرتسر اور کلکتہ تک اپنے ڈراموں کی وجہ سے شہرت حاصل کر چکے تھے، آغا حشر کے معروف ڈراموں میں یہودی کی لڑکی ، رستم اور سہراب اور آنکھ کا نشہ کو بڑی شہرت ملی ۔ 1935ء کے بعد جب خاموش فلموں کا دور ختم ہوا اور بولتی فلمیں چلنے لگیں تو یہ فلمیں عوام کی توجہ کا مرکز بن گئی وہ بڑی سادگی کا زمانہ ہوا کرتا تھا، ایک طرف میلے ہوا کرتے تھے ۔ اور پھر انہی میلوں پر بالی جٹی ، عالم لوہار اور عنایت حسین بھٹی جیسے فنکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیاکرتے تھے ۔عنایت حسین بھٹی اور صبیحہ خانم کا تعلق گجرات کی سر زمین سے تھا ۔اِن لوگوں کی فلمیں اور تھیٹر دیکھ کر سید افضال احمد جیسے خوبرو نوجوان نے بھی فلم انڈسٹری میں جانے کا فیصلہ کیا۔ جھنگ ویسے بھی مائی ہیرو سیال کی نگری ہے کہ جہاں پر دونوں عاشق صادق ہیر اور میاں مراد بخش قوم رانجھا اکٹھے ہی آسودہ خاک ہیں۔ جنگ کی یہ عشق محبت کی داستان بہت پرانی ہے لیکن اِس کی تازگی آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ سید افضال احمدجھنگ کے ایک زمیندار گھرانے کے چشم چراغ تھے، والدین کی سخت مخالفت کے باوجود بھی وہ فلم انڈسٹری کا حصہ بن گئے اور پھر اُنہوں نے اپنے آپ کو خوب منوایا اُن کی گرج دار آواز اور مکالموں کی ادائیگی بڑی جان دار ہوا کرتی تھی جبکہ اولڈ کرداروں میں بھی وہ خوب جچتے تھے، لاہور میں لکشمی چوک فلمی اداکاروں کا بڑا مشہور ٹھکانہ ہوا کرتا تھا، اِسی لکشمی چوک کے ساتھ فلمی دفاتر ہوا کرتے تھے ۔ان کو لکشمی چوک اِن دفاتر میں لازمی آنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم لاہور میں کچھ عرصہ روزنامہ آزاد میں کام کیاکرتے تو ہر دوسرے دن لکشمی چوک ضرور جانا ہوتا جہاں کی دنیا ہی الگ تھی مختلف فلموںکے بڑے بینرز ہر طرف نظر آتے جبکہ اُس وقت یعنی 1997ء تک یہ فلمی دفاتر آباد تھے۔ ایک مرتبہ جب میں ڈیرہ غازی خان کے معروف آرٹسٹ اور فلمی بینرز بنانے والے اُستاد نذیر کو لاہور لے کر گیا تھا۔ تو وہ دوریش صفت آرٹسٹس سارا دن لکشمی بلڈنگ پر لگے فلم جی دارکے اُس بینر کو بڑے شوق اور محبت سے دیکھتے رہتے کہ جس میں لالہ سدھیر نے کلہاڑی اُٹھائی ہوئی تھی، اور اُن کے پیچھے اداکارہ نیلو کی فوٹو ہوا کرتی تھی۔نذیر آرٹسٹ بنانے والے کو بڑی داد دیا کرتے کیونکہ یہ اُن کا شعبہ تھا ۔ لاہور کے بڑے فلمی اسٹوڈیو میں باری ملک کا باری ا سٹوڈیو، آغا جی اے گل کا ایو رنیو اسٹوڈیو جبکہ میڈیم نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کا شاہ نورا سٹوڈیو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تھے اور یہی تینوں اسٹوڈیوفلمی ستاروںکا مرکز ہوا کرتے تھے اداکارا افضال احمد چونکہ بہت گورے رنگ کے تھے اس لیے فلمی دنیا میں وہ افضال چٹا کے نام سے مشہور تھے۔ اُن کی شادی اپنے خاندان میں ہوئی لیکن برسوں بعد وہ اداکارہ بہار کے عشق میں مبتلا ہو گئے حالانکہ بہار اُن سے عمر میںکافی بڑی اورسیز تھیں لیکن فلم انڈسٹری کی دنیا ہی الگ ہے، یہاں پر ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان کو یقین نہیں آتا لیکن وہ حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں افضال بھی بہار کے دیوانے ہو گئے اور اِن کے عشق مجازی کے بھی فلمی دنیامیں چرچے ہونے لگے دونوں شوٹنگ کے بعد ایورنیو اسٹوڈیو کے کمروں میں چلے جاتے اور زیادہ تر وقت اکٹھے بسر کرتے تھے پھر جب فلم کو زوال آیا تو افضال احمدنے 1996ء کے دوان اپنا تمیثل تھیٹر کے نام سے ادارہ بنالیا اور یہی سے ایک بہت ہی کامیاب اور معروف ڈرامہ جنم جنم کی میلی چادر شروع کیا، جو بہت ہی کامیاب ہوا ۔انھیں پہلی مرتبہ فالج ہوا، جس سے اُن کی بول چال بند ہو گئی افضال احمد 21 سالوں تک اِس مرض میں مبتلا رہے اور اپنا وقت پورا کرتے رہے۔ اُنہوں نے جن فلموں میں بھی کام کیا وہ یادگار بن گئی جن میں وحشی جٹ ، نشان ، جادو ، شریف بد معاش ، چن وریام ، شیر خان ، قربانی نوکر ویٹی دا،دہلیز جیسی سینکڑوں فلموںمیں کا م کیا جبکہ 1985ء کے دور میں انہوں نے معروف بلوچ سردار میر چاکر رند کا بہت ہی خوب صورت کردارا داکیا جبکہ اُن کے مد مقابل اورنگر زیب لغاری نے میر گوہرام لاشاری کا کردار ادا کیا تھا۔ افضال احمد اب اِس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور ہم سب نے اِس دنیاسے کوچ کرنا ہے اب ان کے لیے یہی دعا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بشری کمزوریوں کو معاف کر کے اُنہیں بخش دے۔(آمین )