موت برحق ہے سب کو جلد یا بدیر جانا ہے۔محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب وہ فرد فرید ہیں، جن کا جانا پوری قوم نے محسوس کیا۔بے شک ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ان لاکھوں پاکستانیوں کو ادا س کر گئے جو ان کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے امین اور جرنیل سمجھتے تھے۔ڈاکٹر صاحب گجرات کے علاقے ڈنگہ کے ایک صاحب ثروت اور معروف سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہورمیں پڑھے جہاں ان کو پروفیسر مرزا محمد منور جیسی علمی و تحقیقی شخصیت کی صحبت میسر آئی۔ڈاکٹر صاحب پروفیسر صاحب کے چہیتے اور لاڈلے شاگرد تھے اور ڈاکٹر صاحب نے بھی محبت و عقیدت کا رشتہ خوب نبھایا ۔بقول محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب پاکستان کا ایک روشن ستارہ اور استعارہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے بڑوں اور استادوں کا تادم آخر دم بھرتے رہے۔انہیں اپنے گائوں کے سکول اساتذہ بھی یاد رہے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر صاحبان بھی۔ ان کے استاد گرامی پروفیسر مرزا محمد منور پکے مسلمان اور سچے پاکستانی تھے۔وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے شیدائی تھے۔یہی اوصاف ڈاکٹر صفدر محمو کی ژخصیت کا حصہ بن گئے۔وہ پاکستان‘قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خلاف چلنے والی علاقائی اور بین الاقوامی غلط بیانیوں کا بھرپور علمی و تحقیقی جواب دیتے رہے۔ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے اور پڑھاتے رہے ،بعدازاں مقابلے کا امتحان پاس کر کے پاکستان سول سروس میں شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب بیک وقت علمی اور عملی شخصیت تھے۔آپ محقق‘مورخ‘کالم نگار اور بیورو کریٹ تھے۔آپ نے دور حاضر کے نام نہاد خود ساختہ مورخین کی پاکستان اور بانیان پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا مدلل اور مسکت جواب دیا اور مخالفین کے با نی پاکستان قائد اعظم سے منسوب تمام غلط بیانات اور جملوں کا تاریخ کی روشنی میں رد کیا۔ڈاکٹر صاحب وطن عزیز میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی کی اپنے تئیں کوشش ہوتی تھی کہ مظلوم اور بے سہارا کا سہارا بنیں۔آپ پاکستان سول سروس کے بلند ترین گریڈ 22یعنی وفاقی سیکرٹری کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔راقم ڈاکٹر صاحب کی منصبی ذمہ داریوں کے کئی امور کا چشم دید گواہ ہے۔مشتے از خرو ارے کہ جب ڈاکٹر صاحب پنجاب حکومت کے نواز دور میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات تھے تو حکومت نے ان کی مشاورت سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا قیام ممکن بنایا اورتحریک پاکستان کے عظیم کارکنوں کی خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈل دینے کا کام کا اجراء کیاہے۔شاہنامہ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کی تدفین کو مینار پاکستان میں سرکاری طور پر ممکن بنایا۔یاد رہے کہ حفیظ جالندھری صاحب امانتاً پہلے ماڈل ٹائون کے قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی سرکاری زندگی کو بھی علمی‘ادبی‘ سیاسی‘سماجی اور ثقافتی خدمات سے آراستہ رکھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اہل علم کے ساتھ ساتھ اہل دل سے بھی محبت رکھتے تھے۔آپ لاہور کی روحانی شخصیت ڈاکٹر نذیر احمد قریشی کی محبت کامحور بھی رہے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر نذیر قریشی صاحب نے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کو کہا کہ آپ کی فی الحال سرکاری ترقی رکاوٹوں اور ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج‘لاہور کی لازمی تربیتی سیشن کے بغیر ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔یہ دورپنجاب میں نواز حکومت اور وفاق میں پی پی پی کی بینظیر حکومت کے درمیان شدید بدگمانیوں اور سیاسی و انتظامی محاذ آرائی کا تھا۔اسی طرح ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سرگودھا کی ایک روحانی شخصیت کے بھی منظور نظر تھے۔ایک بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب سرکاری تعیناتی کے منتظر تھے وہ اس دوران ان کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کوسیکرٹری تعلیم کے طور پر تعیناتی کی نوید دی۔ڈاکٹر صاحب کی ذاتی زندگی علم‘عمل اور دل والوں کی عنایات سے عبارت تھی۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا پروفیسر مرزا محمد منور سے ادب‘احترا م اورمحبت و عقیدت کا غیر معمولی رشتہ تھا۔پروفیسر مرزا منور صاحب کے جب کبھی اسلام آباد جاتے تو وہ اورفاقی سیکرٹری مذہبی امور لطف اللہ مفتی پروفیسر منور صاحب کی میزبانی کرتے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ضیاء الحق کا دور حکومت تھا۔جب اسلام آباد میں خوب سردی ہوتی تھی۔استاد گرامی مہمان تھے۔راقم بھی ساتھ تھا۔ڈاکٹر صفدر صاحب نے نماز فجر سے بھی پہلے اپنے استاد گرامی کے لئے تمام ضروری سہولتوں کا اہتمام کرتے تھے۔استاد گرامی بھی ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو اپنا سمجھتے تھے۔اگر ڈاکٹر صاحب لاہور میں ہوتے تو استاد گرامی موسم سرما کے آغاز میں بچوں کے لئے اعلیٰ قسم کی گجگ‘ریوڑی اور دیگر سردی کی سوغات کا تحفہ بھیجتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب ضیاء دور میں چیئرمین فلم سنسر بورڈ مقرر ہوئے تو سنسر کے مخالفین نے اودھم مچایا کہ ایک مولوی کا سنسر بورڈ سے کیا کام۔اس وقت ڈاکٹر صاحب نے میری موجودگی میں استاد گرامی کو دردمندی سے بتایا کہ جس طرح برائی کے لئے ایک ٹولہ متحد ہے۔اے کاش بھلائی کے حق میں بھی اچھے لوگ ایک جگہ متحد ہو جائیں تو ملک اور قوم کی تقدیر بدل جائے۔ راقم گواہ ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ان اہل دل افراد میں شامل ہیں۔جنہوں نے اس دنیا میں رہ کر دوسری دنیا یعنی قبر کی باقاعدہ تیار کی۔آپ بہت مخیر فرد تھے، اولاد بیرون ملک تھی مگر بچے اپنی زکوٰۃ ‘خیرات‘صدقات کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان بھیجتے تھے اور یہ رقم ڈاکٹر صاحب پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی طبی اور فلاحی اداروں میں صرف کرتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کو مساجد کی تعمیر کا بھی شوق تھا ،خود بھی تمام عمر صوم و صلٰوۃ کے پابند رہے۔ آپ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ یتیموں، بیوائوں، طالب علموں اور ضرورت مند عزیز و اقارب اور احباب پر خرچ کرتے تھے۔ایک ضعیف بابا ان کا دیرینہ خادم تھا جو برسوں سے علامہ اقبال کے خادم علی بخش کی طرح ان سے ان سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے جانے سے کئی سفید پوش گھرانوں کے چراغ بھی گل ہو گئے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرما ئے اور اعلیٰ درجات سے نوازے۔ راقم نے اپنے بیٹے محمد عبدالرحمن کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا آخری دیدار اللہ اکبر مسجد ڈیفنس فیزIمیں کیا۔میرے بیٹے نے ڈاکٹر صاحب کا چہرہ دیکھ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ پرنور اور طمانیت سے معمور تھا اور کیوں نہ ہوتا۔اللہ و رسولؐ کی راہ پر صبر‘خلوص استقامت اور وفاداری سے چلنے والے نفس مطمئنہ کے حامل ہوتے ہیں اور یہی سب سے بڑا الٰہی انعام ہے جو اللہ اپنے محبوب بندوں کو عطا کرتا ہے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را