نہ تو منو بھائی کے جنگل اداس ہیں جیسی اداسی طاری ہے اور نہ ہی ناصر کاظمی کے شعر کی طرح دل کا شہر سائیں سائیں کر رہا ہے۔ مگر بے سبب آج کسی ایک موضوع کی بجائے بہت سے موضوعات کی کاک ٹیل بنانے کو جی چاہ رہا ہے۔ لگتا ہے جیسا قائد کا پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ کافکا کے اداس کرداروں کی طرح، منٹو کی سسکتی کہانیوں جیسا۔ ایسے میں جون ایلیا… منیر نیازی اور عدیم ہاشمی کے شعروں میں پناہ لینے کو جی چاہتا ہے۔ جیسے منیر کہہ رہے ہوں کہ اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے … پھر اس کی راکھ کو بھی ہوا میں اُڑا دینا چاہیے، ملتی نہیں اماں ہمیں جس زمین پر … اک حشر اس زمین پر اٹھا دینا چاہیے۔ منیر سے پوچھنے پر دل کرتا ہے کہ وہ کون سے لوگ تھے، وہ کیسے رویئے تھے، وہ کس طرح کے حالات تھے جو اس جیسا بے پناہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوا۔ بہت پرانی بات ہے کہ فردوس جمال کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملا۔ پوچھا گیا تو کہنے لگے ’’اس ملک کا اثاثہ اسے کہتے ہیں جس کا اپنا کوئی اثاثہ نہیں ہوتا‘‘۔ تو یہ ملک کس کا اثاثہ ہے؟ پانامہ زدہ سیاستدانوں کا، دوہری شہریت والی بیوروکریسی کا، منی لانڈرنگ والے شرجیل میمنوں کا، ریلوے کی زمین بیچنے والے قاضی اشرفوں کا، مزدور کے خون سے سرخ گالوں والے سیاستدانوں کا، آئی ایم ایف کا؟ یا اُن اٹھارہ کروڑ ووٹرز کا جو صرف ایک دن ہی اہم ہوتے ہیں۔ اس ملک کا سیاسی معاشی کلچر کیا ہے؟ منافقت، جھوٹ، مکاری، بدکاری، عیاری، گلا سڑا سیاسی معاشی نظام۔ طالب علم پوچھنے لگا … سر یہ ملک اللہ اور اس کی کتاب کے نام پر بنا تھا، سر پھر کیا ہوا؟ پھر سب کچھ غلط ہوگیا … کسی نے بھی وہ کام نہ کیا جو اس کا کام تھا۔ بس وہ سب دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑاتے رہے۔ بس چلتے چلتے منزل تو نہ آئی، ہم یہاں آگئے اور راستے کھو گئے، منزلیں گم ہوگئیں۔ اب صرف ڈالر ہے، آئی ایم ایف ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ ہے، کرپٹ ایف بی آر ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایف بی آر میں ایک غیرتحریر شدہ آئین ہے۔ وہ کیا؟ گریڈ سترہ سے اوپر کا کوئی بھی افسر جب کوئی فائل اپنی ٹیبل سے دوسری ٹیبل یا افسر کی جانب دستخط کرکے بھیجتا ہے تو ایک خاص امائونٹ اس کا حق بن جاتی ہے۔ ایک نوجوان افسر نے جب یہ کہا کہ میں یہ امائونٹ نہیں لینا چاہتا۔ اس نے اپنے کلریکل سٹاف سے کہا کہ میرے حصے کی رقم جتنی بھی روزانہ بنتی ہے وہ آپ لوگ آپس میں بانٹ لیا کرو۔ میں فائل پر سائن کردیا کروں گا۔ فائل روکوں گا نہیں۔ اس پر اسے اس کے چیف باس نے بلالیا اور کہا ’’کچھ لوگ سائیکل چلاتے ہیں، پیڈل مارتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سائیکل سٹینڈ پر کھڑی کردیتے ہیں اور پھر پیڈل مارتے چلے جاتے ہیں۔ سفر طے کیا ہونا ہے، وہ تمام زندگی ایک ہی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں‘‘ وہ نوجوان افسر بات سمجھ گیا اور اب وہ کرائے کے گھر سے اپنے گھر منتقل ہورہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے قائد کے پاکستان میں موسم ٹھہر سا گیا ہو۔ حرکت تیز تر ہے … مگر سفر ہے کہ رک سا گیا ہے۔ شاید ریورس میں ترقی ہورہی ہو۔ جب میں بلاول، مریم، اور ان کے قبیل کے دیگر سیاستدانوں کو سنتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ نہ سیاستدان بدلے … نہ ان کا پس منظراور نہ ہی پیش منظر۔ بس چہرے ہلکے پھلکے سے بدل گئے۔ زرداری نہ سہی بلاول سہی … بڑے میاں صاحب نہ سہی مریم بی بی ہی سہی۔ اورنج اور میٹرو والے خادم اعلیٰ نہ سہی… گھر کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے والے حمزہ ہی سہی۔ اُدھر شرجیل میمن ہے تو اِدھر سلمان شہباز کہہ رہے ہیں ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ شرط یہ ہے کہ صرف ان کا جھوٹ ہی نہ سنو، ان کے ارد گرد بکھری ہوئی سچائی بھی دیکھو۔ وہی تقریریں … وہی ذہنیت … وہی پرانی وارداتیں … نہ طور بدلے نہ طریقے۔ بس سننے والے ہی ذرا احمق اور تھوڑے سے بیوقوف ہیں۔ گورننس پر غور کرلیں۔ عثمان بزدار جب پنجاب کے سر پر اپنا سایہ لہراتے ہوئے تشریف لائے تو … ایک بے نام شاعر کان میں کہنے لگے ؎ ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر اس پر تم لے آئے سائبان شیشے کا آپ کسی بیوروکریٹ سے ملنے چلے جائو۔ اسلام آباد یا لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں، بغیر سفارش اور بغیر ریفرنس کے۔ پھر تم بیوروکریٹک بھول بھلیوں میں داخل ہوجائو گے جہاں ہر کلرک بہرا ملے گا، ہر افسر اندھا نظر آئے گا۔ درودیوار آپ کو خود کا مذاق اڑاتے، قہقہے بلند کرتے، منہ چڑاتے نظر آئیں گے۔ پھر کسی ہیوی ویٹ کا فون کروائو، سنگ دل درو دیوار رومن عہد کے کسی غلام کی طرح سر تا پا مودب ہو جائیں گے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ایسی ہی ہوتی ہوگی۔ انگریز بہادر کے عہد میں شاید مقامی کالوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ کمپنی چلی گئی مگر کمپنی والے شاید یہیں کہیں آس پاس موجود ہیں۔ گورا صاحب چلا گیا، کالا صاحب موجودہے۔ اصل تو پھر بھی اچھا تھا۔ کاش نقل بمطابق اصل ہی ہوتی۔ یہ تو بہت بری فوٹو کاپی ہے۔ ہر طرف حکمران ہی حکمران ہیں۔ ضابطے ہی ضابطے ہیں۔ ٹیکس بھی ہیں، قانون بھی ہیں، حکومت ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ ہم کہتے تھے کہ میٹرو اور اورنج سرکار سے نجات ملے گی تو سڑکوں سے دفتروں تک گورننس کے کچھ اچھے نمونے دیکھنے کو ملیں گے۔ مگر کلرک سے سیکرٹری تک، کانسٹیبل سے ایس ایچ او تک، مریم اورنگ زیب سے فردوس عاشق اعوان تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ بدلا ہے تو ڈالر کا ریٹ،بجلی کے نرخ، پٹرول کی قیمت۔ ایسے میں دل چاہتا ہے منو بھائی کا جنگل اداس ہے پڑھا جائے، جون ایلیا کے گمان کی ورق گردانی کی جائے، کرشن چندر اور منٹو کے کرداروں میں پناہ حاصل کی جائے، نہیں تو ماسٹر عبداللہ اور مدن موہن کی موسیقی ہی اوڑھ لی جائے۔