دسمبر کے شروع ہوتے ہی میری صحت خراب جا رہی ہے، اخبار دیکھ کر صدمہ ہوا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ہمارے دوشیر جوان سپاہی محمد جواد شہید اور حوالدار شیر زمان خان شہید دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ہیں۔ شہید انشاء اللہ زندہ رہیں گے اور دہشت گرد نیست و نابود ہوں گے۔ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ شہداء کے بارے قیس فید نے سچ سچ کہا ’’کلہیں بہہ تے سوچاں تیکوں، اکھی موٹ تے ڈیکھاں تیکوں‘‘ اسی طرح بابا بلھے شاہ سئیں نے فرمایا ’’بلھے شاہ اساں مرنا نا ہیں، گورپیا کوئی ہور‘‘۔ دسمبر کی یادوں میں ایک یہ بھی ہے کہ سرائیکی زبان کے معروف شاعر اور وسیب کے عظیم خدمت گار دلنور نور پوری صاحب 9 دسمبر 2014ء کو فوت ہوئے، اسی طرح معروف معالج اور ماہ نامہ عصائے کلیم کوٹ مٹھن کے ایڈیٹر ڈاکٹر خورشید محمد ملک کی وفات بھی اسی مہینے میں ہوئی۔ انگریزی کیلنڈر میں دسمبر ور دیسی کیلنڈر میں مگھر جسے ہم سرائیکی میں ’’مانگھ‘‘ کہتے ہیں، کو یادوں کو مہینہ کہا جاتا ہے۔جونہی یہ مہینے شروع وتے ہیں، سرد ہوائیں چلتی ہیں تو ہر انسان یادوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید نے کہا’’اج مانگھ مہینے دی یارہی وے کیوں ،بیٹھیں یار وساری وے‘‘ اس مفہوم یہ ہے کہ آج مگھر کی گیارہ تاریخ ہو گئی ہے، تو نے اپنے محبوب کو کیوں بھلایا ہوا ہے۔ اسی طرح سرائیکی دھرتی کے ایک اور عظیم شاعر محسن نقوی نے اردو میں کیا خوب کہا۔ ٹھنڈی ہوائیں کیا چلیں مرے شہر میں محسن ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا دسمبر بہت ستم گر ہے، اس کی یادیں ہمارے لئے خوشگوار نہیں، اسی مہینے سقوط ڈھاکہ ہوا، لاکھوں لوگ مارئے گئے اور ہم اپنے لخت جگروں کے ساتھ آدھے ملک سے بھی ہاتھ بیٹھے، اسی مہینے سندھ ماں دھرتی کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی لاش راولپنڈی والوں نے گڑھی خدا بخش بھیجی۔ اسی مہینے سانحہ پشاور پیش آیا ،جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں لخت جگر ہم سے جدا ہوئے ، اسی موقع پر کہا گیا کہ ’’ جنازوں پر پھول ہمیشہ دیکھے ، مگر پھولوں کے جنازے پہلی مرتبہ دیکھے ۔‘‘ صحافت کے طالب علم اور محرومی کا شکار’’ پس افتادہ‘‘ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو کوئی لمحہ، کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں جو زخموں سے چور لہورنگ نہ ہو لیکن آج دسمبر ہے تو کیوں نہ اس کی یادیں تازہ کریں۔ دسمبر کی ستم ظریفیوں میں ایک ستم جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم بھی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اپنی نشری تقریر میں تین ماہ کے اندر الیکشن کرانے کا اعلان کیا، تین ماہ گزرنے پر انہوں نے نئی تاریخ دیدی، نئی تاریخ کا وقت آیا تو وہ اس سے بھی مکر گیا۔ الیکشن کے سلسلے میں کوئی وعدہ وفانہ ہوابولے والے جانے والے جھوٹوں کی انتہا ہو گئی، ضیاء الحق کسی صورت الیکشن نہ کرانا چاہتا تھا، لیکن مطالبہ بڑھ رہا تھا، ایک طرح سے الیکشن کا لفظ ضیاء الحق کی ’’چڑ‘‘ بن گیا۔اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی وجود میں آیا، وہ اس طرح کہ شیو کرنے والے حجام نے ضیاء الحق سے پوچھا’’ جنرل صاحب الیکشن کب کرا رہے ہیں؟‘‘ جنرل صاحب نے جواب دیا بہت جلدی، دوسرے دن حجام نے کل والی بات دہرائی جنرل صاحب نے بھی کل والا جواب دہرایا لیکن غصے کی تھوڑی سی آمیزش کے ساتھ۔ حجام نے تیسرے دن اپنی بات دہرائی تو جنرل صاحب سخت طیش میں آگئے اور حجام سے کہا تو سیدھی بات بتا تیرا بار بار پوچھنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا تو سیاستدان ہے یا الیکشن لڑے گا؟ حجام نے ہاتھ جوڑ کر کانپتے ہوئے کہا حضور جان کی امان پائوں، میں سیدھی بات عرض کرتا ہوں کہ مجھے الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں سیاستدان ہوں اصل بات یہ ہے کہ’’ جب میں الیکشن کا ذکر کرتا ہوں آپ کی جلد کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرے لیے شیو کا کام آسان ہو جاتا ہے‘‘ لطیفے سے پہلے میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی دوسری بے شمار ستمگریوں میں ایک19 دسمبر 1984؁ء کو کرایا جانیوالا ریفرنڈم بھی تھا، اس فراڈ ریفرنڈم میں یہ نہ پوچھا گیا کہ صدر کون ہو؟ بلکہ ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس کا ’’ ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں جواب دیناتھا، ریفرنڈم میں واضح کیا گیا تھا کہ’’ہاں‘‘ کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ پانچ سال کیلئے ضیاء الحق آئینی طور پر ملک کے منتخب صدر ہوں گے۔ سوال یہ تھا کہ’’کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے شروع کیا ہے‘‘ پاکستانی عوام نے جنرل ضیاء الحق کے’’فراڈ‘‘ کو مسترد کیا اور وہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ گئے اور سرکاری اہلکاروں نے پرچیوں پر مہریں مارنے کا فریضہ سرانجام دیا، یہ اس جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم تھا جو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 کے الیکشن میں ’’جھرلو‘‘ کے الزام میں برطرف کیا تھا۔ضیاء کے بعد مشرف کا ریفرنڈم بھی اسی طرح کا تھا، اب حکومتی حلقوں کی طرف سے سرائیکی صوبے کی حدود اور سرائیکی صوبے کے نام پر ریفرنڈم کی تجویز آتی ہے تو ہم کانپ جاتے ہیں۔ دوسرے طبقوں کے ساتھ ساتھ ضیاء الحق نے صحافیوں کے ساتھ ہی بہیمانہ سلوک کیا اس سلسلے میں دسمبر کی ستمگری اور جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اقدامات کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی سنیئے کہ 18 دسمبر1979 کو جنرل ضیاء نے ازالہ حیثیت عرفی کے قانون کی رو سے کسی شخص کے خلاف ہتک عزت مواد کی اشاعت ممنوع قرار دی ،خاص بات یہ ہے کہ آرڈی نینس میں یہ بھی لکھا گیا ، ’’شائع شدہ مواد کتنا بھی سچا حقیقی اور مفاد عامہ کے حق میں ہی کیوں نہ ہو‘‘ جنرل ضیاء الحق کے اس قانون کو اخبارات کی عالمی تنظیموں نے کالا قانون کا نام دیا تھا، جنرل ضیاء الحق کے عرصہ اقتدار میں مساوات، ہلال پاکستان، صداقت، قاصد، اعتماد (بلوچستان) آزاد کشمیر کے کار زار، مشیر، انجان آزاد، نیلم، قائد، مبصر شعلہ اور ان کے چھاپہ خانہ المدینہ پرٹنگ پریس مظفر آباد، الفتح کراچی، تمثل الحمید، سائنس ڈائجسٹ، سرگزشت، انگریزی، آرٹس انٹرنیشنل اور میڈیکل سپیکڑم سمیت مزید درجنوں اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ ہوئے باقی تمام اخبارات پر مکمل سنسر کے علاوہ مساوات اور حیدر کے پرٹنگ پریس کی سرعام بولی لگوا دی گئی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں کئی نامور صحافی صرف گرفتار ہی نہیں ہوئے انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، روز نامہ صداقت کراچی میں اندھے کی لاٹھی لکھنے پر بشیررانا کو بغیر وارٹ گرفتار کیا گیا سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔