ستر کے عشرے میں کمیشن پانے والی ’پاکستانی نسل‘ کے افسران ’برٹش اور امریکی جنریشنز‘ کے برعکس انڈین آرمی کے ساتھ معمول کے تعلقاتِ کارکا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ انہیں برٹش اور امریکی افواج کوقریب سے دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ اس جنریشن کے افسروں کے رویوں میںعمومی طور پر بھارتیوں سے متعلق درشتگی اور دلوں میں بھارت سے بدلہ لینے کی خواہش پائی جاتی۔ یہ نسل پاکستان آرمی میں اس وقت شامل ہوئی تھی جب پاکستان آرمی سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شدیدعوامی دبائو کا شکار تھی۔ دوسری طرف بھارت کی قید میں رہنے والوں کی اکثریت بھٹو اور یحییٰ خان کو سقوطِ ڈھاکہ کے لئے برابر کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔اُن میںسے اکثر کا خیال تھا کہ بھٹو نے ان کی رہائی کے معاملے کو جان بوجھ کربرسوں طول دیا۔انہی میں سے کئی افسران ترقیاں پا کر اہم عہدوں پرفائز ہوئے۔ اسی دوران بھٹو صاحب تواتر کے ساتھ آرمی کی سینئر لیڈر شپ کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار ٹھہراتے اور بسا اوقات تضحیک کا نشانہ بناکر ان کو بے اثر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ان کی یہ کوشش بظاہر رنگ بھی لا رہی تھی کہ خود ادارے کے اندردیگر معاملات سے دوری اختیار کرتے ہوئے پیشہ وارانہ استعداد بڑھانے کے لئے آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ ان آوازوں میں ایک آواز جنرل ضیاء الحق کی بھی تھی۔ جنرل ضیاء الحق چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہوئے تو انہوں نے اس سمت میںمتعدد اقدامات اٹھائے۔ نوجوان افسروں کی فوج میں سلیکشن، ابتدائی سالوں میں تربیت ا ورپیشہ وارانہ گروتھ کے نظام کونئے سرے سے مرتب کیا گیا۔ عسکری تربیت کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں سویلین یونیورسٹیوں میں تاریخ، نفسیات ، سیاسیات اور سٹریٹیجک سٹڈیز جیسے مضامین کے کورسز کے لئے بھیجا جانے لگا۔مڈل رینکنگ افسروں کو اہم ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنے کی خاطرراولپنڈی میں قائم ڈیفنس کالج میں کورسز کو نئے سرے سے منظم کیا گیا ۔ ( جنرل اسلم بیگ مرزاکی حال ہی میں چھپنے والی داستانِ حیات ’ کمپلشنز آف پاور‘ پڑھنے سے اور کچھ حاصل ہو یا نہ ہو ،پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کے دوران افسروں کی کلیدی عہدوں اور اہم کورسز پر تعیناتیوں کےarbitrary بنیادوں پراستوار ہونے کا احساس ضرور نمایاں ہوتا ہے)۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان افغانستان کی جنگ میں امریکی اتحادی بناتوجدید جنگی سازو سامان اورلڑاکا طیارے بھی افواج پاکستان کاحصہ بننے لگے۔ جنرل ضیاء ہی کے زمانے میں پاکستان آرمی کے آپریشنل ڈاکٹرین کی تشکیل نَو پربھی کام شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق پاکستان آرمی کی ’برٹش جنریشن ‘ سے تعلق رکھتے تھے مگر جنرل ایوب کے طرح سینڈ ہرسٹ سے نہیں بلکہ آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت یافتہ تھے۔لوئر مڈل کلاس پنجابی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ خاندانی پس منظر کی بناء پر مذہبی رجحانات کے حامل تھے۔اس کے باوجود اس امر کے شواہد موجود نہیں کہ وہ بھٹو مخالف مذہبی جماعتوں کے طرف دار تھے۔ سٹیفن پی کوہن کا خیال ہے کہ وہ مذہبی جھکائو رکھنے والی افسروں کی وہ نسل تیارکرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے جو بعد ازاں ’ضیاء الحق جنریشن‘ کہلائی۔لاہور میں فقید المثال استقبال کے بعدمنتقم المزاج بھٹو کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے جب جنرل ضیاء الحق کو سیاسی جماعتوں کی مدد درکار ہوئی تو’ پولیٹیکل اسلام ‘کے نظریئے پر قائم دینی سیاسی جماعت دستِ تعاون پیش کرنے والوں میں پیش پیش رہی۔دوسری جانب عشروں پہلے مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری مسلم دنیا میںبنیاد پرستی کی جس فصل کی آبیاری سی آئی اے نے کی تھی ، افغانستان میںاُ س کا پھل کاٹنے کا وقت آن پہنچا تھا۔حالات نے امریکہ، پاکستان کے فوجی حکمرانوں ، مذہبی سیاسی جماعتوں اور افغانستان میں جہادی گروہوں کے مفادات کو ایک لڑی میں پرو دیاتھا۔افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت پر آج بھی دو آراء موجود ہیں اوردونوں اطراف پر مضبوط دلائل موجود ہیں۔تاہم مارشل لاء کے نتائج پر اختلاف رائے کی خلیج بہت بڑی نہیں ۔بھٹو صاحب پر عائد فردِ جرم کی اصابت اپنی جگہ،تاہم دکھائی یہی دیتا ہے کہ شخصی خدشات اورمفادات ہی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے پیچھے بنیادی محرکات بنے۔نتیجے میں ایک بڑی اور ملک گیر سیاسی جماعت کی ٹوٹ پھوٹ علاقائی اور لسانی گروہوں کے قیام کی صورت سامنے آئی۔غیر جماعتی سیاست کے نتیجے میں سیاسی خرید وفرخت کے لئے دولت جبکہ پارٹی سے وابستگی کی بجائے مقامی اثرو رسوخ اہمیت اختیار کر گئے۔اَسّی کے عشرے میں مالی بدعنوانی سیاست میں بُری طرح در آئی اور ملکی سیاست کے چند خاندانوں کے ہاتھوںیرغمال بن کر رہ جانے کے عمل کا آغاز ہو گیا۔دوسری طرف افغان جنگ کا پہلا نتیجہ یہ برآمد ہواکہ ملک میں مہاجرین کا سیلاب امنڈ آیا۔ منشیات اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ صنعت کی صورت اختیار کر گئی ۔ ملک مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرست جنونیوں کے لئے میدانِ جنگ بن گیا۔ اسی بیچ پاکستان اور بھارت دو مرتبہ جنگ کے دہانے پر پہنچ کر واپس لوٹے۔ ملک میں مسلسل معاشی زوال کے دو نتائج برآمد ہوئے تھے۔اولاََ، ’الیٹ طبقات‘ کیلئے فوجی افسر بننا باعث کشش نہ رہا تھا، ثالثاً، بے روزگاری کے عالم میں مڈل اورلوئر مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ شہری نوجوانوں کے لئے فوج میں کمیشن خالصتاََ میرٹ پرنوکری حاصل کرنے کا واحد راستہ بچا تھا۔اس تبدیلی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ پاکستان آرمی کی ساخت وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے کی عمومی نمائندگی کرنے لگی۔چنانچہ جنرل طلعت اسلم کے مطابق گزرتے برسوںپاکستان آرمی کے افسروں کی اکثریت ’زیادہ رجعت پسند، مغربی طرزِ زندگی اور افکار کی مخالف اور مذہبی خیالات کی حامل ہوگئی‘۔جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ’شرعی احکامات‘ کا نفاذ سختی سے ہونے لگا۔نتیجے میںکئی مواقع پر دیکھا گیا کہ کمانڈنگ افسروں کی اپنے افسروں کے بارے میں آراء اُن کے مذہبی افکار اورrituals میں باقاعدگی کے پیمانے سے متاثر ہونے لگیں۔یونٹوں میں جے سی اوز رینک کے خطیب صاحبان مقرر ہونے لگے، جو خطبات اور دروس میں اپنے افکارکے اظہارمیں آزاد تھے۔ شلوار قمیض آفیسرزمیسوں اور اعلیٰ درجے کی تقریبات کا سرکاری لباس بن گیا۔ایک وقت آیاکہ ہر درجے کے افسروں اور جوانوں کامختلف مسلکی تنظیموں کے ساتھ روابط استوارکرنا اور ان کی مجالس میں شرکت کرنا معمول کی بات سمجھی جانے لگی۔ ہر زمانے اور ہر دور کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سال 1988 ء میں جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار نہ ہوتا توبھی ان کادورِ اقتداراپنا’ طبعی عرصہ حیات ‘ پورا کر چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی نے ناصرف یہ کہ پاکستان بلکہ افواج پاکستان کو بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔ ’نیشنل آرمی‘ کی بجائے پاکستان آرمی کی پہچان اب ایک ’ مسلم فوج ‘کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے لگ بھگ ایک قرن کے بعدادارے کو واپس ’قومی ادارہ ‘بنانے کی ضرورت ہمیں اس وقت پیش آئی جب لادین سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جہادیوں کو اکیسویں صدی کے آغاز پر دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پاک فوج کو ان سے نبردآزما ہونے کے لئے اتارا گیا۔ (جاری ہے)