ترقی کرتی دنیا اور پاکستان میں یہی فرق ہے کہ وہ نئے لمحے میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور پاکستان ایک سانحہ کی گرفت میں آ کر ٹھہر جاتا ہے۔ ہفتہ ہونے کو آیا 11ہزارہ باشندے قتل ہوئے۔ انسانی ہمدردی کی جگہ اب سفاک سیاست پیشقدمی کر چکی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ کہ وزیر اعظم نے وقت ضائع کرنے کے ساتھ اپنی ساکھ بطور لیڈر ماند کر لی ہے۔ پہلے ایک ’’اگر‘‘ کی پڑتال کر لیتے ہیں‘ کسی نے کہا تو نہیں مگر بین السطور ضرور بات ہوتی ہے کہ اگر وزیر اعظم دھرنے پر بیٹھے ہزارہ افراد سے تعزیت کے لئے گئے تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم غم سے نڈھال خاندانوں کے سر پر دست شفقت رکھنے گئے تو انہیں ایسے مطالبات پیش کئے جائیں گے جو قومی سلامتی کے لئے مناسب نہیں۔ ان میں افغانستان سے غیر قانونی نقل مکانی کر کے بلوچستان میں آنے والے ہزارہ افراد کے شناختی کارڈ کا معاملہ بھی ہے۔ کہا گیا کہ اگر وزیر اعظم غم زدہ خاندانوں کے آنسو پونچھنے کوئٹہ چلے گئے تو ایک اگر یہ کھڑا ہو جائے گا کہ وہ سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں سے کیوں نہ ملے‘ اسامہ ستی کے والدین سے تعزیت کیوں نہ کی۔ گیاری سیکٹر میں برف تلے دب جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ سے کیوں نہ ملے۔ اس ایک ’’اگر‘‘ کا کیمیا بہت پھیل جاتا ہے۔’’اگر‘‘ کے کئی خاندان برآمد ہو جاتے ہیں۔ مسئلے کا ایک پہلو خالصتاً انسانی ہمدردی اور دکھ بانٹنے سے ہے۔ عمران خان کی ذاتی زندگی میں ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں جن میں وہ کسی کے جنازے میں شریک ہوئے ہوں۔ ایک سپر سٹار اور ہر دلعزیز ہیرو کے طور پر یہ معاملہ دوسروں کے لئے قطعی اہم نہیں۔ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ عمران خان کے دل میں جانے یہ تاثر کیوں پختہ ہوا ہے کہ سیاستدان بیماری‘ موت‘ جنازے اور تعزیت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے کئی اتحادیوں کو وزیر اعظم سے یہی گلہ ہے۔ کئی قریبی دوست فوت ہو گئے لیکن وہ جنازے میں شامل نہ ہوئے۔ ان کا یہ تاثر معلوم نہیں کیوں اور کیسے تشکیل پایا لیکن اس امر میں شبہ نہیں کہ وہ اس معاملے میں غلط ہیں۔ پاکستان کے کئی معاملات ابھی اس کے شہریوں کے لئے سربستہ راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام کے نام پر تمام مسالک کے مسلمانوں اور کچھ اقلیتوں نے مل کر جو ملک حاصل کیا وہاں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے حق میں ذہن سازی کی جاتی ہے اور مسلح گروہ بنا کر خون بہایا جاتا ہے۔ ایک واقعہ ہوتا ہے اور دشمن طے کر لیتا ہے کہ اس نے اسے کیسے پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنا ہے‘ یہ صرف ہم ایسے عقلمند ہیں جو دشمن کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمارے جنازوں کو سکیورٹی رسک بنا دے۔ کوئی کام سلیقے اور طریقے سے کرنے والے نہیں ہیں تو دیہی علاقوں کے ناخواندہ پنچائتیوں سے وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو ضرور کچھ سیکھ لینا چاہیے کہ انسانی رشتوں اور ہمہ جہتی تعلقات میں کس طرح توازن رکھا جا سکتا ہے۔ ہم روز سنتے ہیں کہ وزیرستان میں دہشت گرد واردات کر گئے‘ بلوچستان میں دہشت گردوں نے معصوم شہریوں یا سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کر دیا‘ لائن آف کنٹرول پر فوجی جوان شہید ہو گئے‘ ہم پی ٹی ایم کی شکل میں ایک فتنے کو پروان چڑھتے دیکھتے ہیں‘ پی ٹی ایم خود کو بچانے کے لئے سیاست میں آئی ہے اور پھر اپوزیشن اس کو ساتھ ملانے کے لئے اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان کے کئی ایسے رہنما روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں زہریلے خیالات کی تبلیغ کرتے ہیں جنہیں اپنے علاقے میں لوگ اہمیت نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو سیاسی دانشور بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو ریاست کو ظالم ثابت کرنے کی دلیل ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ سوچنے پر پابندی نہیں لیکن پھر یہ بھی بتایا جائے کہ وہ دانشور کہاں گئے جو ان کے تھیسز کا اینٹی تھیسز تخلیق کرتے ہیں۔ ایک تسلسل سے عوام دشمن طبقات ریاست دشمن بن رہے ہیں اور وہ جن کا قلم‘ جان اور مال عام آدمی کے مفاد پر خرچ ہو جاتے ہیں ان کے لئے کہیں خیر کے بول نہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کوئٹہ میں گئے‘ اچھا کیا‘ ملک کی چھوٹی بڑی تمام جماعتوں کے رہنمائوں کو ڈرائنگ روم سے نکل کر کوئٹہ جانا چاہیے۔ کوئٹہ ہی کیوں ایک بار سب کو مل کر تحریک منہاج القرآن کے دفتر جا کر 14شہدا کے لواحقین سے بھی ملنا چاہیے۔ ہم نے کچھ اور شاید نہ سیکھا ہو مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے اپنا آپ دائو پر لگانا ضرور سیکھ چکے ہیں‘ وہ ایک خاتون ہے سندھ میں‘ وہی جس نے الزام لگایا کہ اس کے باپ اور چچا کو پی پی کے دو اراکین اسمبلی نے قتل کرایا۔ پھر وہ ایک صحافی بھی ہے جس کے قتل کا الزام پی پی کے رہنمائوں پر ہے۔ ان سب کو جمع کیا جائے سب مظلوموں کے دکھ پر روئیں‘ رونے کے بعد برانڈڈ صابن سے ہاتھ دھوئیں کیونکہ محروم بے سہارا اور عدم تحفظ کے مارے لوگوں سے چھو چکے ہیں۔ ہزارہ کے مظلوم خاندانوں سے گزارش ہے کہ ان شہیدوں کے لاشوں کو سیاستدانوں کے مفاد کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ یہ آپ کے غم خوار ہوتے تو واقعہ کے اگلے دن ہی آپ کو پرسہ دینے آ جاتے۔ انہوں نے حساب لگائے‘ نفع نقصان کو تولا۔آپ کا درد پاکستانیوں کے سینے پر تیزدھار چاقو سے لکھ دیا گیا ہے ۔ آپ اور ہم بے بس ہیں ۔تھوڑا صبر کہ اللہ تعالیٰ رونے والوں کو بے سہارا نہیں چھوڑتا ۔