ملاقات میں گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے کی تجویز پر اتفاق کیا گیا تاہم شرکا نے تجویز دی کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد یہ کام نئی اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے تاکہ پی ٹی آئی الیکشن میں اس کا کریڈٹ نہ لے سکے۔آزادکشمیر میں سردار عبدالقیوم نیازی کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو چیف سیکرٹری کی طرف سے حکومتی ا ہداف کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی قرارداد کی حمایت اور تیرویں ترمیم کے خاتمے کو حکومتی ترجیحات میں سرفہرست دکھایاگیا۔متوقع عوامی ردعمل کا ادراک کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم نیازی نے جنرل فیض سے کہا کہ اگر ہم نے یہ قرارداد منظور کرلی تو پی ٹی آئی کی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ قوم پرست جماعتوں کی حمایت میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔ کشمیری پاکستان سے مایوس ہوجائیں گے۔ چنانچہ صوبہ کا نام لیے بغیر آزادکشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کی حکومت کو تمام اختیارات دینے کی حمایت کی ایک قرارداد پاس کی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اورمسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے اعلیٰ سطحی رابطوں ، دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے درمیان تبادلہ خیال کا کوئی بھی ذی ہوش شخص مخالف نہیں ہوسکتا لیکن اس کیلئے ایک ماحول اور فضا تیار کرنا پڑتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد عمران خان کی حکومت پر الزام تھا کہ وہ کشمیر کا ’’سودا‘‘ کرچکی ہے۔ کشمیری بھی پاکستان کے ناکافی ردعمل سے ناخوش اور مضطرب تھے۔ دوسری طرف بھارت کشمیری لیڈر شپ کو رتی بھر رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔ ا س پس منظر میں اگر مودی پاکستان آبھی جاتے تو اس دورہ کا انجام واجپائی اور مودی کے دورہ لاہور سے مختلف نہ ہوتا۔ ان دونوں مواقع پر نوازشریف نے عسکری قیادت اور دیگر جماعتوں کی لیڈرشپ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا لہٰذا دونوں انی شیٹو بری طرح فلاپ ہوگئے تھے۔فوجی لیڈرشپ نے ان کی مخالفت کی اور سیاسی جماعتوں نے نوازشریف کو برا بھلا کہا۔ پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں زبردست گرم جوشی پید ا کی۔ کشمیریوں کو بھی بڑی حد تک راحت ملی لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور قاضی حسین احمد آن بورڈ نہیں تھے۔ کچھ اخباری انٹرویوز اور رپورٹس کے مطابق بے نظیر اور نوازشریف دونوںنے بھارت کو پیغام بھیجا کہ وہ مشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کریں کیونکہ انہیں عوامی تائید حاصل نہیں ۔ جماعت اسلامی نے بھی ڈٹ کر مخالفت کی ۔حتیٰ کہ یہ موقع بھی ضائع ہوگیا۔جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے وسیع البنیاد مشاورت سے گریز کرکے نوازشریف والی غلطی دہرائی ۔ وہ بھول گئے کہ ایسے معاہدوں کی اونرشپ سیاسی لیڈرشپ کے علاوہ اور کوئی نہیںلے سکتا۔ قومی نوعیت کے فیصلوں کو عوام کی عدالت میں پیش کرکے رائے عامہ کے لیے قابل قبول صرف اور صرف سیاسی قیادت ہی کرسکتی ہے۔ عمران خان جانتے تھے کہ اگر مودی پاکستان آتے ہیں اور کشمیر کو بیس برسوں کے لیے سرد خانے میں ڈال دیا جاتاہے تو قوم اس فیصلے کو قبول نہ کرتی۔ وہ سیاست اور تاریخ دونوں میں ’’اچھوت‘‘ بن جاتے۔کشمیر میں انہیں’’ غدار ‘‘کے طور یاد کیا جاتا۔علاوہ ازیں سیاسی فیصلوں کا اختیار سیاسی لیڈرشپ کا ہے۔ اداروں کا کام ان کی معاونت ہے نہ کہ خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا۔ اگر مودی کو پاکستان بلانے کا پراسیس عمران خان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اسے ہٹلر جیسے توہین آمیز القابات سے نہ نوازتے بلکہ قومی سطح پر سازگار ماحول تیار کرتے۔عمران خان بیانیہ بنانے کے ماہر ہیں وہ کسی حد تک عوام کوقائل کرسکتے تھے کہ پاک بھارت دوستی ان کے مفاد میں ہے۔وہ کشمیری لیڈرشپ کے ساتھ بھی مکالمہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہ دی۔ عالم یہ تھا کہ پانچ اگست 2019کے بھارتی اقدامات کے بعد عسکری لیڈرشپ بھارت کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی لیڈرشپ ٹکراؤ کی راہ پر گامزن تھی۔اسلام آباد میں سفارت کار راقم الحروف کو بتایا کرتے تھے کہ عمران خا ن کا بھارت کے بارے میں رویہ سخت گیر اور جنرل باجوہ کا لچک دار ہے۔غیر ملکی مہمانوں کو باجوہ یہ تاثر دیتے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں لیکن عمران خان روڑے اٹکاتے ہیں۔یعنی وہ اعتدال پسنداور صلح جو ہیں۔پرویز مشرف کی طرح۔اس دورخی پالیسی کے باعث تمام کاوشیں اکارت گئیں۔ مودی پاکستان آئے نہ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو کوئی راحت ملی۔ گلگت بلتستان بھی صوبہ نہ بن سکا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کار میں رتی بھر بہتری نہ آئی۔وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان اقوام متحدہ میں ایک سخت جھڑپ ہوئی۔وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کئی ایک مثبت اشارے دیئے لیکن اب تحریک انصاف انہیں کشمیر کا سودا گر قراردینے پر تلی بیٹھی ہے۔ اب جنرل الیکشن سر پر کھڑا ہے۔ مہنگائی نے دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ خلق خدا انتقام پر تلی ہوئی ۔ اس سال کے آخر تک پاکستان الیکشن کے ہنگامہ سے نکلے گاتو بھارت کا الیکشن شروع ہوجائے جہاں پاکستا ن اور مسلمانوں کو گالی دینے سے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتاہے۔لہٰذاپاکستان سے مفاہمت یا کشمیر یوں کے ساتھ نرمی کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ کیا یہ وقت نہیں کہ پاکستان کے ادارے اپنی پالیسی سازی کے عمل کے ہر پہلوپر ازسرنو غور کرکے ان خامیوں کو دور کریںجن کے باعث سیاسی اور عسکری حکام بعض اوقات متحارب پالیسیوں پر گامزن رہتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کی جنگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اب کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے کے بس میں نہیں ۔ اس کے لیے بیک وقت دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے اندر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔مقبوضہ کشمیر میں حالات بہتر کرنا ہوں گے۔ سیاسی لیڈروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور صحافیوں کو جیلوں سے رہا کرنا ہوگا۔سرحدوں پر اعتماد سازی کے اقدامات ناگزیر ہیں۔یہ دیوہیکل منصوبہ ہے۔ اتنا بوجھ اٹھانا اب کسی لیڈرکے بس میں نہیں ۔