بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل ) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے تحریک انصاف حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے وعدے پورے نہیں کئے ، بلوچستان کو برابر کا حصہ دینا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ بجٹ میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے ، ہم حکومت سے حق تلفی کا حساب لیں گے ۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے سردار اختر مینگل کو منانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سردار اختر مینگل بظاہر بلوچستان کی محرومی کی بات کر رہے ہیں ، در اصل ان کو اور انکی جماعت کو حکومتی عہدوں پر وہ حصہ نہیں ملا ، جس کی وہ امید کر رہے تھے ۔ جہاں تک بلوچستان کی محرومی کی بات ہے تو محرومی ختم ہونی چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کے والد سردار عطا اللہ خان مینگل بھی رہے اور خود اختر مینگل بھی وزیراعلیٰ رہے تو بلوچستان کی کتنی ترقی ہوئی ؟ سردار عطا اللہ خان مینگل کی باتوں سے وسیب کے دکھ یاد آ گئے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں سرائیکی مزدوروں کے قتل کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ،چند سالوں کے دوران صادق آباد، خانیوال، شہر سلطان ، میاں چنوں ، راجن پور ، ڈی جی خان ، روجھان ، مظفر گڑھ ، خان پورکے سینکڑوں سرائیکی مزدوروں کو پنجابی کا نام دیکر قتل کیا جا چکا ہے۔ اتنے بڑے ظلم اور بربریت پر وفاقی حکومت ‘ پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی خاموش ہیں۔ سردار اختر مینگل سمیت بلوچستان حکومتیں سرائیکی مزدوروں کے قتل عام کی براہ راست ذمہ دار رہی ہیں، اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قاتلوں کو گرفتار کرے اور مقتولوں کے لواحقین کو انصاف دے لیکن چونکہ سرائیکی وسیب کے سیاستدان چاہے وہ جاگیردار ہیں ، گدی نشین ہیں یا آباد کار ہیں یہ سب بے حس اور بے لحاظ ہونے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے خوشامدی اور چاپلوس بھی ہیں۔ یہ کبھی ایوانوں میں بات نہیں کرتے ۔ ان لوگوں نے ما سوا جمائی ایوان میں منہ نہیں کھولا ، کبھی انہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی ۔ یہ ستم بھی ملاحظہ کیجئے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اختر خان مینگل نے گزشتہ ماہ تونسہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ڈی جی خان ، راجن پور ، کشمور اور جیکب آباد بلوچستان کا حصہ ہیں ۔ جب تک ان اضلاع کو بلوچستان میں شامل نہیں کیا جائے گا ، ان اضلاع کی پسماندگی و محرومی ختم نہیں ہوگی ۔ عین اسی دن جب اختر مینگل کا تونسہ میں جلسہ تھا تو ڈی جی خان میں پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی کے سربراہ سردار اکبر خان ملکانی کی قیادت میں اختر مینگل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا اور ان کا پتلا نذرِ آتش کیا جا رہا تھا ۔ تاریخی حوالے سے حقائق کو دیکھنا چاہئے ، ڈی جی خان راجن پور کی اصل حیثیت بارے ڈاکٹر احسان چنگوانی کی تاریخ ڈیرہ غازی خان اور تاریخ راجن پور کے حوالے سے دو الگ الگ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر احسان چنگوانی نے لکھا ہے کہ ان علاقوں کے قدیم آثار اس بات کے گواہ ہیں کہ ان علاقوں کی قدیم زبان سرائیکی ہے جو ہزاروں سالوں سے اس علاقے میں بولی اور سمجھی جا رہی ہے اور یہ علاقے ہمیشہ ملتان کا حصہ رہے۔ ( تاریخ راجن پور صفحہ 54 ) ۔ سردار اختر مینگل اپنی اصل شناخت بھول چکے ہیں ، وہ خود براہوی ہیں ، وہ مظلومیت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور مظلوموں سے چھیڑ خانی بھی کرتے ہیں ۔ ان کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں ، وہ کہہ رہے ہیں کہ تاریخی طور پر مذکورہ اضلاع بلوچستان کا حصہ تھے ۔ حالانکہ بلوچستان کبھی صوبہ نہ تھا ، 1969ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا ۔ اس پر بھی اعتراض ہوا کہ یہ صوبہ غیر جمہوری اور غیر آئینی ذریعے سے وجود میں لایا گیا اور اس کیلئے کوئی صوبہ کمیشن بھی نہ بنایا گیا ۔ موجودہ بلوچستان کی قدیم اور اصل زبان براہوی ہے، خطے کے لوگوں کا خیال تھا کہ صوبے کانام دریائے بولان اور تاریخی درہ بولان کے حوالے سے بولان ہونا چاہئے تھا ۔ بلوچستان کی اصل ریاست قلات ہے جہاں کی زبان براہوی ہے ۔ 1880ء میں جرمنی کے ماہر لسانیات ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے اپنی تحقیق کے ذریعے لکھا کہ اس خطے کی اصل زبان براہوی ہے۔ انہوں نے تحفۃ العجائب کے مصنف داد قلاتی میر نصیر خان اول (1750-1793ئ) 1257 اشعار پر مشتمل براہوی نسخہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ 1959ء میں براہوی ادبی بورڈ قائم ہوا اور براہوی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ مولانا محمد عمر دین پوری نے کیا ۔ بلوچستان کے اضلاع بارکھان ، نصیر آباد اور جھل مگسی ، دیرہ بگٹی، ڈیرہ مراد جمالی اور ایران کے بارڈر تک سرائیکی زبان بولی جاتی ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے کثیر علاقے کی زبان پشتو ہے جو کہ لورا لائی سے کوئٹہ تک چلی جاتی ہے۔ بلوچی جو کہ فارسی خاندان کی زبان ہے، کے بولنے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے ۔ تمام بلوچ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بلوچ ایران سے آئے۔ بلوچ سرداروں کے دور میں کبھی ترقی نہیں ہوئی اور صدیوں سے غریب بلوچ محرومی و پسماندگی کا شکار ہیں۔ سرائیکی وسیب کے سرداروں اور جاگیرداروں کی طرح بلوچستان کے سردار اور جاگیردار بھی ہمیشہ بر سر اقتدار رہے مگر پسماندہ علاقوں میں اگر کوئی ترقی کا میگا پراجیکٹ ملا تو غیر جمہوری دور میں ملا ۔ میں غیر جمہوری دور کی حمایت نہیں کرنا چاہتا مگر حقیقت یہ ہے کہ سندھ سرائیکستان بلوچستان کے کسی بھی علاقے کو دیکھ لیں ، محرومی کے اصل ذمہ دار وہاں کے وڈیرے نظر آئیں گے ، قوم پرست رہنما اجمل خٹک نے پاکستان کی محروم قوموں کیلئے پونم کے نام سے اتحاد قائم کیا ، اس اتحاد میں بہت کام کیا ، اتحاد کے منشور میں سرائیکی صوبے کو اولیت حاصل تھی ، اتحاد کی سربراہی جوں ہی سردار عطا اللہ خان مینگل کے پاس آئی تو انہوں نے پونم کو ہی ختم کر دیا ۔ اب محروم خطے کے لوگ خصوصاً سرائیکستان صوبہ محاذ نئے سرے سے پونم کی طرز پر نئے اتحاد کیلئے کوشاں ہیں ۔ اس سلسلے میں محاذ کے سربراہ خواجہ غلام فرید کوریجہ نے بھرے جلسے میں کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے وعدے کے باوجود صوبہ نہیں بنایا ، یہ کٹھ پتلی ثابت ہوئے ہیں ، اب وسیب کے حقوق اور صوبے کے قیام کیلئے کیوں نہ مقتدر قوتوں سے براہ راست بات کریں ۔