عرب کی معاشرت اور کلچر میں مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔مکہ حضرت ابرہیم ؑ نے آباد فرمایا اور نسل اسمعیل سے فروغ پذیر ہوا، ۔۔۔۔۔قریش حضرت اسمعیل کی اولاد تھے،اورمشرکانہ رسوم و رواج کے باوجودخود کو دینِ ابرہیم پر تصورکرتے، ان کے سارے ماحول میں کعبہ کو مرکزیت میسر تھی، روز مرہ کی کوئی مصروفیت نہ ہونے کے سبب، کعبہ کے گرد اپنی نشستیں آراستہ کر کے بیٹھنا ہی ان کا محبوب عمل تھا ، طواف کعبہ کو بھی انہوں نے انتہائی قبیح رسم و رواج سے پراگندہ کررکھا تھا، اس میں ان کا رویہ انتہائی گھنائونا تھا ، مرد اور عورت۔۔۔ جتنا کوئی برہنہ ہوتا، اتناہی اسکا طواف معتبرسمجھا جاتا، قیام عرفہ، صدقات و خیرات، کھاناکھلانا،مہمان نوازی ، بہادری ۔۔۔ لیکن روزے کی عبادت کا ان کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ان کا پیشہ اور مشغلہ لڑائی جھگڑا ،لوٹ مار اورفساد تھا، جس کے لیے ان کے پاس دو سواریاں تھیں،ایک اونٹ اوردوسرا گھوڑا۔ اونٹ انکی آب وہوا، حالات اور موسم سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کئی دن تک بغیر کچھ کھائے پیئے گزارہ کر سکتا تھا۔ دھوپ کی تپش اس پر اثر اندازنہ ہوتی،لیکن لڑائی اورجنگ کے لیے یہ جانور موزوں نہیں تھا ۔ جائے واردات سے بھاگنا ، فرار ہونا۔۔۔ اس کیلئے جس سُر عت اور تیز رفتاری کی ضرورت تھی ،وہ اونٹ کے اندر موجود نہ تھی ۔ گھوڑا ان اوصاف کا حامل تھا، لیکن وہ دھوپ برداشت نہیں کرتا تھا، وہ گرمی سے مضحمل اوربھوک سے نڈھال ہوجا تا۔ اگر سوار ی ہی پریشان ہوجائے ،توسوار کا کیا حال ہوگا۔اس لیے وہ اسے جنگ اور موسموں کی صعوبتوں کے مقابلے کیلئے تیار کرتے تھے ۔ اسکا دانہ پانی بند کرتے۔ عرب کی چلچلاتی دھوپ میں گھوڑ سوار عرب، خود اپنے سر اور منہ کو لپیٹ لیتے، باد سموم، تیز،آگ جیسی ہوا۔۔۔ جسمیں ریت کے نو کیلے زرّات بھی موجو د ہوتے تھے ، کے سامنے گھوڑے کوکھڑا کردیتے، تاکہ اس کے اندر دھوپ کی سختی اور پیاس کی شدت کو برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ اسکو وہ لفظ " صوم" سے تعبیر کرتے۔صوم کا لفظی معنی ہے رُک جانا، کھانے پینے سے رُ کنا اور دوسرا موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار۔۔۔ بلکہ بر سرپیکار ہونا یہ معنی ہے ۔صوم کالغوی اعتبار سے اور اہل عرب کی ثقافت اور کلچر میں ۔ نبی مکرمﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تو دیکھا یہاں کے یہودی محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں۔سرور عالمﷺ نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجا ت دی تھی اور بحر احمرکی موجوں سے بسلامت وہ ساحل پر پہنچے تھے، اس لیے ان کے نبی پر اللہ تعالیٰ نے جو یہ انعام فرمایا وہ از راہ تشکر اس دن یہ روزہ رکھتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃ و السلام نے فرمایا :"حضرت موسیٰ پر اللہ تعالی کے انعام کا شکریہ ادا کرنے کے ۔۔۔ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں۔"چنانچہ حضور ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اورمسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ ہجرت کے دوسرے سال ماہ شعبان میں رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم نازل ہوا:"اے ایمان والو!فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسے فرض کیے گئے تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جائو"اس کے بعد فرمایا :" ماہ رمضان المبارک جس میں اتار ا گیا قرآن اس حال میں کہ یہ راہ حق دکھاتا ہے لوگوں کو اور )اس میں(روشن دلیلیں ہیں، ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی ، سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو، تو وہ یہ مہینہ روزے رکھے۔"کسی دین کا اہم ترین فریضہ انسان کی اصلاح ہے۔ انسان کی اصلاح کی یہی صورت ہے کہ اس کے دل کی اصلاح ہوجائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس میں خوف الہٰی کی شمع فروزاں کرکے رکھ دی جائے اور اس کا مئوثر ترین طریقہ روزہ ہے ۔ صبح سے لیکر شام تک کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے محض اس لیے مجتنب رہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ مسلمان اگر تنہا ہو ، کوئی انسانی آنکھ اسے دیکھ نہ رہی ہو ، ایسی حالت میں اسے سخت پیا س لگی ہے، ٹھنڈے پانی کی صراحی بھی موجود ہے ،اس کے باوجود اس کا ہر حالت میں فرمان الٰہی کی بجا آوری پر کار بند رہنا تقویٰ کا کمال ہے اور یہ مشق اسے مکمل ایک ماہ کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح اس کے دل میں خوف خدا کا نقش گہرا ہوجاتا ہے ۔ پھر اس ماہ کے بعد بھی اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی، جس سے اس کے مولا کریم نے اسے منع فرمایا ہے ۔ اصلا ح قلب اور تزکیہ نفس کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کا فرمان الہٰی۲ ہجری میں نازل ہوا، جب کہ ملت مسلمہ اپنے کینہ توز، اور طاقتور دشمنوں سے اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصر وف تھی اور شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق دیگر عبادات کی طرح، روزے کے احکام بھی بتدریج نازل ہوئے۔ ابتدائی طور پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183،184… جس میں روزے کی فرضیت کا حکم عطا ہوا:’’اے ایمان والو! پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر پر ہو، وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے…‘‘ ان احکام میں روزے کی فرضیت تو ہے، مگر اس سے مراد ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت نہیں ہے، بلکہ علامہ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر کی جلد اول میں لکھا کہ یہ ’’اول اول روزے اسی طرح تھے، جیسا کہ ہم سے پہلی امتوں پر ہر ماہ میں تین روزے ‘‘جنہیں ایام بیض‘‘ یعنی روشن ایام کے روزے کہا جاتا تھا، یعنی 13، 14 اور 15جس کی قدیم تاریخ حضرت نوح تک جاتی ہے، جن کی شریعت میں یہی تین روزے تھے، یہاں تک کہ وہ رمضان کے مہینے کے روزوں کے احکام سے منسوخ ہو گئے، جس کا حکم سورہ بقرہ کی آیت نمبر185 میں موجود ہے کہ ’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو ہدایت ہے لوگوں کیلئے اور اس میں ہدایت کی نشانیاں ہیں اور فرقان یعنی حق و باطل کا امتیاز ہے، پس تم میں سے جو بھی اس کو پالے تو وہ ضرور اس کا روزہ رکھے‘‘۔ یہ احکام بنیادی طورپر رمضان کے روزے کے حوالے سے عطا کئے گئے، یعنی ابتدائی طور پر ہر ماہ تین روزے فرض کرکے اس عبادت کا خوگر بناگیا، ویسے بھی ہر ماہ تین روزے رکھنا آسان ہے۔ اس میں موسموں کا تنوع بھی ہے، گرمی اور سردی کے ایام بھی، جب یہ عبادت ذوق کا حصہ بن گئی تو پھر پورے ماہ کے روزوں کی فرضیت کے احکام نازل ہو گئے۔ ابتدائی احکام میں ’’ایاماً معدودات‘‘ یعنی گنتی کے چند دن۔ تو 30 دنوں کو گنتی کے چند دن تو نہیں کہہ سکتے اور ویسے بھی عربی قواعد میں یہ جمع (یعنی یوم کی جمع ایام) ان اوزان میں سے ہیں جنہیں ’’جمع قلت‘‘ کہا جاتا ہے جس کا زیادہ سے زیادہ اطلاق9 یا 10 پر ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں حج ایام کے حوالے سے بھی ایسا پیرایہ استعمال ہوا ہے۔