دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ایٹمی قوتوں کے مابین جنگ سے پرہیز کا چارٹر طے ہوا۔ جنگ مگر ہوتی رہی جسے جان فاسٹر ڈلس اور ہنری کسنجر نے کولڈ وار کا نام دے دیا۔ پیار تو ہونا ہی تھا۔ تو یہ کولڈ وار پراکسی وارز میں بدل گئی۔ پھر روس بکھر گیا۔ کسی نے کہا اب Clash of civilization ہوگا اور کوئی پکارا کہ یہ End of history ۔ مگر بات چلتے چلتے جا پہنچی Hybrid Warfare تک۔اب جنگ کا انداز اور عہد سبھی بدل چکے ہیں۔ اب لڑائی فوجوں سے، ٹینکوں سے، میزائلوں سے اور سرحدوں پر ہی نہیں لڑی جاتی۔ اب اس کے رنگ اور ڈھنگ دونوں بدل گئے ہیں۔ ا ب کوئی پرل ہاربر نہیں ہوتا۔ اب جنگ لڑی جاتی ہے بغیر اعلان کیے۔ اب لڑائی ہوتی ہے بغیر یونیفارم افواج کے ذریعے۔ اب جنگ کا محاذ بھی بدل گیا ہے اور انداز بھی۔ اب یہ لڑائی ہوتی ہے تو دشمن کی اکانومی پر اٹیک کرکے۔ معاشرے میں جو تضادات ہیں انہیں ابھار کر… سوشل میڈیا کے ذریعے … مذہبی اختلاف کو ہوا دے کر … میڈیا پر کنفیوژن پید اکرکے اور ان فالٹ لائن (Fault lines) کو نمایاں کرکے جو ہر سوسائٹی کا حصہ ہوتی ہیں۔ ڈیفنس اور سٹریٹجی کے ماہرین اسے Hybrid War بھی کہتے ہیں اور ہماری سلامتی کے ذمہ دار حلقے اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیتے ہیں۔ اس جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف جذبہ اور اسلحہ کافی نہیں ہوتے۔ ٹھنڈی اور طویل عرصہ (لانگ رن) حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائی ٹیک تربیت اور سائنٹفک اپروچ کی اور وہ بھی صرف نارمل نہیں… کمال کی انتہا پر۔ پاکستان کے ساتھ ایک المیہ ہے۔ اس کی گورننس اور پرفارمنس 73 سالوں سے مسلسل ایک سوالیہ نشان ہے۔ ماضی قریب کے حکمران خاندانوں کی بوئی ہوئی فصل ہم مسلسل کاٹ رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کا ایک ہم جزو … معاشی سلامتی بھی ہوتی ہے۔ جب بنام سیاست، جمہوریت اور الیکشن ہماری سلامتی تک خطرے میں پڑ گئی تو وہ ہوا جو 2018ء کے بعد سے اب تک ہمیں نظر آرہا ہے۔ مگر حالیہ سیاسی تجربے نے بہت کچھ ایکسپوز کردیا ہے۔ دو سال کے سیاسی تجربے نے صد فی صد ثابت کردیا ہے کہ سیاستدان، بیوروکریسی، ٹیکنو کریٹس … بمع امپورٹڈ مشیران گورننس تب ہی حرکت کرتی ہے جب اس میں خاکی ایکسپرٹس کی شمولیت ہوتی ہے۔ اسے ماڈرن اصطلاح میں ہائی برڈ گورننس کہتے ہیں۔ اس ہائی برڈ وار کے عہد میں اگر کوئی ملک ہائی برڈ گورننس کے عہد سے گزر رہا ہو تو کچھ سوالیہ نشان ابھر کر افق پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔ کیا سول لیڈر شپ… سول بیورو کریسی… سول ادارے کسی بھی بحران سے نپٹنے کی صلاحیت سے ناآشنا ہوچکے ہیں؟ جب کسی روایتی پنڈت سے بات کرو تو وہ مسکرا کر کہتا ہے ’’قوم بار بار اس تجربے سے گزرے گی تو بات بن ہی جائے گی‘‘۔ بات بن رہی ہے یا بات بگڑ رہی ہے؟ جی زوال ہے … مسلسل اور وہ بھی پورے کمال سے ہے۔ 85ء سے ہی شروع کرلیں۔ گورننس مسلسل روبہ زوال ہے۔ جماعتی، غیر جماعتی ہر نوع کے تجربات سامنے ہیں۔ رفتہ رفتہ عام آدمی اس سارے عمل سے باہر اور لاتعلق سا ہوگیاہے۔ وہ ٹی وی ڈسکشن سن کر … اپنی جیب میں جھانکتا ہے۔ بات مزید بگڑ رہی ہے۔ پاکستان کی معاشی بقا دشمنوں کا ٹارگٹ ہے مگر ہم یہاں تک پہنچے بھی اپنوں کی مہربانیوں سے ہیں۔ تمہارا سچ اور ہے میرا سچ اور … تمہارا قانون اور ہے میرا قانون اور۔ آپ سول انتظامیہ کو سہارا دے لیں مگر کیا یہ زوال کا سفر رُک جائے گا؟ اس خلا کو پُر کرنے والے اپنے بنیادی فرض کی نزاکت کو بھی نبھائیں اور دوسروں کی نااہلیت کا بھی مداوا کریں؟ ریاست پاکستان، کیا اس عدم توازن کو زیادہ عرصہ تک جھیل پائے گی؟ 73ء کا آئین اپنی تمام تر ترمیموں کے ساتھ خبروں کی زینت ہے۔ تبدیلی؟ ان ہائوس یاباہر سے؟ … سب فروعی مسائل ہیں۔ عمران یس… عمران نو… کب تک؟ پاکستان اس وقت ہائبرڈ وار کی زد میں ہے۔ ہر اطراف سے… اس کے لیے ایک لانگ رن حکمت عملی درکار ہے۔ صرف سیاست اور اکانومی کے محاذ پر نہیں … ہر بارڈر پر کہ آج آپ کے دشمن کا کوئی چہرہ نہیں … کوئی وردی نہیں … اٹیک کا علاقہ طے نہیں … ایسے میں بالکل ایک ازسرِ نو ابتدا کی ضرورت ہے۔ بنیادی خطوط کے نئے سرے سے تعین کی ضرورت۔ جمہوریت کا نام ہمارے elite کی زبان پر تو ہے، کاش اس کے ڈی این اے میں بھی ہوتا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کون سی ہے؟ امریکہ اور بھارت۔ دونوںنے دنیا کو کیا دیا؟ ٹرمپ اور مودی … چین ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس نے کرونا پر بھی سب سے پہلے قابو پایا اور امریکہ کو بھی عالمی بساط پر چیلنج کردیا۔ پاکستان کو … اس کے elite کو … اس کی اسٹیبشلمنٹ کو … اس کے دانشوروں کو سوچنا ہوگا کہ آج ہم کس عہد میں کھڑے ہیں؟ یقینا ہائبرڈ وار کے عہد میں۔ اس غیرروایتی طریقہ جنگ میںن دشمن کے ہتھیار بھی روایتی تو نہ ہوں گے ہرگز۔ تو پھر ہماری اندر کی کمزوریاں … ضعف، ناطاقتی، گورننس، کہاں تک چلے گی؟ کب تک چلائو گے؟ رک کر سوچنا چاہیے۔ منزل، راستے اور سمت کے نئے سرے سے تعین کی ضرورت ہے۔ دشمن تو دشمن … دوست ملکوں کی سپائی ایجنسیاں ہمارے ہاں کس طرح آپریٹ کرتی ہیں؟ ہماری اندرونی کمزوریوں پر کس طرح ریسرچ کرتے ہیں؟ ہمارے سیاسی رول ماڈلز کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ گورننس کی کمزوریوں میں … ہائبرڈ وار کے آسان ٹارگٹ کس طرح دریافت ہوتے ہیں۔ ذاتی سیاست کے پہلو میں کس طرح مقامی سیاستدان مذہب اور برادری کا کارڈ کھیلتا ہے؟ اس پر ضرورت ہے ایک Review کی۔ مگر اِن رِستے ہوئے زخموں کی دوا کون کرے گا؟ البرٹ کامیو میرا پسندیدہ مصنف ہے، اس کے مطابق: Life is the sum of all your choices... ۔