یہ کوئی کہانی‘ افسانہ ‘ ناول یا شاعری نہیں ہے۔ خطوط ہیں جو پردیس کاٹتے ہوئے ایک شوہر نے اپنی بیوی کے نام لکھے ہیں۔ یہ خط جس منظر اور پیش منظر میں لکھے گئے وہ بدل چکا ہے ۔ ان کا سیاق و سباق تبدیل ہو گیا ہے۔ جذبات کا محل وقوع وہ نہیں رہا۔ محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا۔ والی صورت حال۔ طواف آرزو کے قبلہ کو بدلے بھی زمانے ہو گئے۔ زندگی کے الیکٹران اب کسی نئے نیو کلپس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ شاید یہی زندگی ہے اور یہی محبت کی کہانی ہے۔ شہر وصال سے آنیوالی ہوائیں ہجر انگیز بہت ہیں سو وہ شہر محبت‘ جو ان خطوں کی خود کلامی میں دھڑکتا ہوا سنائی اور دکھائی دیتا ہے وہ برسوں پہلے ہجر انگیز ہوائوں سے اجڑ چکا۔ یہ سچ ہے کہ ہم ایک ہی زندگی میں کئی زندگیاں جیتے ہیں اور ان مختلف زندگیوں کے سب ٹکڑے الگ ہونے کے باوجود اپنی جگہ پورا سچ ہوتے ہیں۔ سو یہ خط بھی وقت کے جس فریم میں لکھے گئے۔ اس فریم میں یہ خط لکھنے والے کی زندگی کا سب سے بڑا سچ تھا اور اگر یہ سچ حسن نثار کے قلم سے نکلا ہو تو پھر اس کے ایک ایک جملے کی کاٹ آپ کے احساس کو چیرتی ہوئی آپ کی روح میں اتر جائیگی۔ یہ خط نجی تھے مگر تمام نجی زندگیاں یا نجی مسائل ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ میں تم اور محبت کی کہانی صدیوں سے ایک ہی جیسی ہے اور ازل تک وہی رہے گی۔ کردار بدلیں گے، مسائل بدل جائیں گے لیکن۔ میں اور تم کے درمیان محبت کی ہزار جہتیں، خوابوں کے سراب، امیدوں کے لالہ زار۔ توقعات کے صحرا۔ ان کہی کا لامتناہی شور ان سنی کا عذاب ادھورا پن اور تکمیل کی خواہش اور تعلق کے اس شہرِ صد رنگ میں ہجر کے ممکنہ فیصلے کی بازگشت۔ سب کچھ میں اور تم کے درمیان ایسے ہی رہے گا: ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا ہم نے تو ایک بات کی اس کمال کر دیا یا پھر: لکھا رکھا ہے عہد ترک الفت مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے سو یہ خط نجی ہونے کے باوجود نجی اور ذاتی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر ان کو کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ کی صورت میں شائع نہ کروایا جاتا۔ پڑھنے والے کو کہیں نہ کہیں اس میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے پردیس کاٹتا ہوا ایک حساس اور جذبوں میں شدت پسند شخص زندگی اور اس سے ان گنت تلخ حقائق کو کیسے دیکھتا ہے۔ سطر سطر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نذیر ناجی نے اس کتاب کے بارے میں لکھا یہ محض خط نہیں ’’شوہر کا بیوی سے مکالمہ ہے۔ سفر کی قیام سے گفتگو ہے۔ حب وطن کے لئے مہک ہے۔ عقل و جنوں کی پکار ہے۔ کوئی ٹوٹی ہوئی شے جڑنے کوبے تاب ہے اور کوئی جڑی ہوئی شے ٹوٹ جانا چاہتی ہے ۔‘‘ خطوں میں سعیدہ اور بچوں سے محبت کا اظہار تو ہے ہی، ساتھ ہی اپنے وطن سے محبت بھی جابجا جھلکتی ہے ۔ مختلف خطوط سے چھوٹے چھوٹے اقتباسات کالم میں شامل کرتی ہوں۔ اس سے کالم کی جگہ تمام ہو جائے۔ تیسری دنیا کے ملک غریب بیوہ مائوں جیسے ہوتے ہیں بچوں کو ماں کی یہ گود چھوڑنی پڑتی ہے کہ محض ماں کی گود کی گرمی سے پیٹ نہیں بھرتا‘‘ یہ جو خط ہے نا اس لیٹر پیٹ پر ایک دھندلی سی ہلکے ہلکے ٹھنڈے رنگوں کی ایک آدھی سوئی آدھی جاگتی تصویر ہے۔ اسے غور سے دیکھو یہ میرا خواب ہے۔ میری روح کیمپس والی نہر کے کنارے بھٹکتی ہے کبھی مجھ سے ملنا ہو تو وہاں چلی جانا۔تمہیں میری انتہا پسندی ناپسند ہے اور کچھ کو میری ہی انتہا پسندی بہت پسند۔ ہر تخلیق کار کے پیچھے کوئی نہ کوئی پاگل پن ضرور ہوتا ہے اور میرا پاگل پن میری ہی انتہا پسندی ہے‘‘ ٭ زندگی میں صرف سکھ چاہیے اور یہ نہ سپر مارکیٹس میں ملتا ہے نہ لاہور کے پینوراما شاپنگ سنٹر میں۔ یہ صرف انڈر سٹینڈنگ میں بھیگے ہوئے ایک رشتے کا دوسرا نام ہے۔ بس اس کو تلاشنا ہو گا ورنہ تو ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے میں سورج بھی ہو تو کلپاہٹ ختم نہیں ہو گی‘‘٭ کیا میں عشق کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ کیا میں سیدھی سادھی نارمل شریفانہ زندگی نہیں گزار سکتا۔ میرے آنے تک کوئی ماہر نفسیات تاڑ رکھو اس سے پہلے کہ مرض مہلک ہو جائے میرا علاج شروع ہو جانا چاہیے۔‘‘٭ محبتیں جن کے نتیجے نہیں نکلتے۔ ان بدنصیب پھولوں کی طرح ہوتی ہیں جو ویران جزیروں میں کھلتے ہیں اور ان کی خوشبو کسی گھائو کو نہیں بھرتی۔٭ بے وطنی میں وطن کے ساتھ محبت اس وحشیانہ طریقے سے پیدا ہوتی ہے کہ تواندازہ نہیں لگا سکتی جسم کا ایک ایک مسام‘ روح کا ایک ایک تار‘ سوچ کا ایک زاویہ اسے مانگتا ہے۔٭ مین مارکیٹ کے پان اور لبرٹی کا ملک شیک بہت یاد آ رہا ہے لیکن جا کر پینا اور ذائقہ ریاض(سعودی عرب) کی طرف اچھال دینا ہے۔٭کاش تم کبھی ریاض آئی ہوتیں۔ چاہے چند دنوں کے لئے سہی۔ کہ پھر میں ان درختوں سے بات کرتا جنہیں تم نے چھوا ہوتا۔ اس گھاس پرچلتا جہاں تم چلی ہوتیں۔ ان سیڑھیوں پر بیٹھتا جس سے تم گزری ہوتیں۔ اور یوں زندگی آسان ہو جاتی۔ 13جون 1982ء کو لکھا ہوا ریاض سے ایک خط جس میں پاکستان سے محبت کی وجوہات حسن نثار نے ایک الگ ہی انداز میں بیان کی ہیں۔ اقبال ساجد کہاںملتا ہے اس کی خشک اور فاقہ زدہ کھانسی میں چرچ کی گھنٹیوں سے زیادہ تقدس ہے۔ منیر نیازی کے لہجے کی گمبھیرتا میں اوناسس کے جہاز ڈوب سکتے ہیں۔ نذیر ناجی کی غیر ذمہ داری اور آوارگی پر کسی بھی ملٹی نیشنل کارپوریشن کا ڈسپلن وارا جا سکتا ہے۔2جنوری 1981ء سے 30جون 1981ء تک لکھے گئے ان خطوں میں زندگی اور اس کے رشتوں سے جڑے ہزار رنگ بڑی شدت اور حدت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔یہ جس جس سیاق و سباق اور پس منظرمیں لکھے گئے وہ بدل چکا‘ جذبات کا محل وقوع تبدیل ہو گیا۔ طوائف آرزو کے قبلے بھی وہ نہیں رہے۔ محبت بھی ضروری تھی۔ بچھرنا بھی ضروری تھا۔ والی کہانی۔ اس لئے کتاب کا انتساب ہے ہر ٹوٹے ہوئے رشتے کے نام۔ لیکن اتنا کچھ بدلنے کے باوجود ان خطوں کی سطر سطر میں جومیں اور تم کے درمیان تعلق کی گھمبیرتا ہے وہ ازل سے آج تک وہی ہے اور وہی رہے گی۔ حسن نثار اور سعیدہ ہاشمی مرحومہ تو محض استعارہ ہیں اس آئینے میں ہم سب اپنے اپنے شکستہ عکس دیکھ سکتے ہیں۔