پاور پالٹکس کی ایک تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ ہمیشہ اس فریق کا ساتھ دیا جائے جو آپ کی طاقت میں اضافے کا باعث بنے۔ اس کا دوسرا مطلب آپ اس فری سٹائل ریسلنگ سے سمجھ سکتے ہیں جہاں رنگ میں بیک وقت پانچ چھ فائٹر موجود ہوتے ہیں‘ کوئی کسی کا اتحادی نہیں ہوتا‘ ہر کوئی ہر کسی کا اتحادی ہو بھی سکتا ہے‘ یاد رہے پاور پالٹکس کا چلن عام ہو جائے تو سیاست اخلاقیات سے محروم ہو جاتی ہے۔ بھارت کی معروف اداکارہ کنگنا رناوت نے دو دن پہلے مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیٹ اور ٹیلی فون پر عاید پابندیاں ہٹانے کی بات کی۔ مہاراشٹر کے ایک ریاستی وزیر نے اسے پیٹنے اور اس کے باپ کو مہاراشٹر لانے کی دھمکی دیدی۔ جب پوچھا گیا کہ آپ حکومت میں ہونے کے باوجود قانون شکنی کی بات کر رہے ہیں تو موصوف بولے‘ قانون کیا ہے؟ بھارتی سیاستدان اداروں کے معاملات اور ان کی شوٹنگز پر گہری نظر رکھتے ہیں تاکہ ان کی کسی خلاف قانون حرکت سے فائدہ اٹھا کر دس بیس نئے حامی پیدا کر سکیں۔پاکستان میں اگر کوئی عدالت کسی کانسٹیبل کو کچلنے والے سیاستدان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دے تو اسے بھی پاور پالٹکس کا مظاہرہ سمجھیں۔کیا کسی نے چوبیس اپریل دو ہزار چودہ کے دن وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر جوتا پھینکنے والے اس صحافی کی اب تک کوئی خبر سنی ؟ جسے سکیورٹی گارڈ پیٹتے ہوئے باہر لے گئے ۔ طاقت کی کئی اقسام ہیں۔ ایک طاقت قانون اور آئینی اختیارات سے ملتی ہے جو منتخب عدیداروں از قسم وزیر اعظم کے پاس ہوتی ہے۔ دوسری طاقت اطلاعات مہیا کرتی ہیں یہ والی طاقت عام طور پر چند صحافیوں کو مل جاتی ہے‘ طاقت کی تیسری قسم ایکسپرٹ پاور ہے‘ آپ کسی منفرد شعبے کے ماہر ہیں تو یہ انفرادیت آپ کی طاقت بن جائے گی‘ طاقت کی ایک قسم آپ کے اندر موجود جارحانہ مزاج ہے‘ بدمعاشوں اور غنڈوں کو یہی طاقت حاصل ہوتی ہے‘ طاقت کی ایک شکل کرشماتی ہوتی ہے۔ اداکار‘ عوامی لیڈر‘ مذہبی رہنما اور کھلاڑیوں کے پاس یہی طاقت ہوتی ہے۔ بنیادی سطح پر لیڈروں کو طاقت کی ضرورت ہوتی ہے‘ انہیں اپنا اثرورسوخ پھیلانے کے لئے طاقت درکار ہوتی ہے‘ لیڈر طاقت کا استعمات کرتا ہے اور اس استعمال کے نتائج کو اپنے مفاد میں ڈھالتا ہے۔ طاقت کی بنیاد پر استوار تعلقات کی نوعیت یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ لیڈر اپنے پیرو کاروں سے ہر وہ کام کروا لیتا ہے جو وہ چاہتا ہے‘ چاہے قانون‘آئین اور سماجی روایات اس کام کی اجازت نہ دیں۔ شہری سپریم کورٹ ینیب دفتر اور تھانوں پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتے ،لیڈر کہے تو وہ ریاست سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔طاقت تمام رشتوں کی بنیادی اکائی ہے‘ طاقت کا مطلب کسی کو قابو میں رکھنا اور ماحول پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے۔ انسان کو طاقت اس لئے دی گئی کہ وہ سب کچھ حاصل کرلے جو وہ چاہتا ہے۔ ایک سوال ہے کہ کیا پاور کے کوئی متبادل چیز بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جذباتی استحصال کا متبادل احترام کا جذبہ ہے۔ سماج وحشیوں اور غیر مہذب افراد کے حوالے کر دیا جائے تو وہ لوگوں کا جذباتی استحصال کرتے ہیں‘ جذباتی استحصال کی کئی شکلیں ہیں۔ ہمارے زیر بحث موضوع میں اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فرد کے خیالات‘ تصورات اور رائے کو مسلسل مسترد کیا جائے۔ اس طرح کا مسلسل استرداد اچھے بھلے لائق افراد میں اپنے صلاحیتوں کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون بین الاقوامی تصورات‘ آئین اور فردکے درمیان تعلق‘ گورننس اور پالیسی سازی‘ معاشیات کے جدید تصورات اور سماجی بہبود کے متعلق مریم نواز سے بہتر معلومات اور عملی استعداد رکھتی ہے لیکن مریم نواز اور ان کے ساتھی ایسی ہر خاتون کو حقیر بنا کر پیش کریں گے۔ جس طرح نواز شریف دانشوروں کی گفتگو سن کر بیزار ہو جاتے تھے‘ مریم بھی ایسی ہی ہیں‘ دوسری طرف بلاول بھٹو ہیں‘ جن کے تجربہ کار‘ بزرگ اور لائق ساتھیوں کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ان کی اعلیٰ صلاحیتیں اس وقت تک صفر ہیں جب تک وہ نوجوان لیڈر کی پسند کے سانچے میں نہ ڈھلیں۔ بس یہی روایات ہیں جو غیر مستحق کو مستحق اور نالائق کو لائق بنا کر طاقت ہتھیا رہی ہیں۔ جن کی طاقت لٹ رہی ہے‘ جن کے حقوق غصب ہو رہے ہیں‘ جن کا استحصال ہو رہا ہے وہ خوش ہیں کہ بارش میں ان کا گھر ڈوبا ہے،ان کے بچے محصور ہوئے ہیں مگر ان کے لیڈر زندہ ہیں۔ 1997ء کے انتخابات میں پاور پالٹکس کا مظاہرہ بڑی دلچسپ صورت میں دیکھا گیا۔ ملک معراج خالد کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کا امیدوار اپنے جلسوں میں کہا کرتا کہ میں ملک صاحب کی شرافت اور دیانت داری کا قائل ہوں لیکن آپ ہی بتائیں جو شخص تیس سال کے دوران وزیر اعلیٰ ‘ وفاقی وزیر‘ سپیکر قومی اسمبلی اور عبوری وزیر اعظم رہنے کے باوجود اپنی زمین کو پانچ ایکڑ سے بڑھا نہ سکا وہ آپ کا کیا بنائے گا؟ ہمیں کئی بار سیدھی باتیں سمجھ نہیں آتیں‘ ہمیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ہمارے لیڈر‘ مذہبی سکالر اور تاجر بے اصول کیوں ہیں‘ ہماری بیورو کریسی بدعنوانی اور نااہلی سے کیوں چپکی ہوئی ہے‘ ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ہم جس بات کو اچھا سمجھتے ہیں وہ حکمران طبقے کو بری کیوں لگتی ہے۔ہمیں تو اس گتھی کو سلجھانے کا طریقہ معلوم نہیں کہ عام آدمی سے اس قدر مختلف لیڈر اس کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے۔