کورونا نے چکرا کر رکھ دیا ہے ۔ حکومت کو اب سمجھ نہیںآ رہی کہ کیا کھولنا ہے ، کیا بند کرنا ہے ؟ کورونا لاک ڈاؤن کے موقع پر پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے سنٹرلائزیشن کرتے ہوئے ملک کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگرام بند کر دیئے اور صرف اسلام آباد سے پروگرام نشر ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ ریڈیو سے کورونا آگاہی مہم کے لئے مقامی زبانوں کی نشریات کا ہونا نہایت ضروری ہے ۔سماجی فاصلہ ضروری ہے مگر ریڈیو سے تو سماجی فاصلہ خودبخود موجود ہوتا ہے کہ اسٹوڈیو میں اکیلا آدمی پروگرام نشر کر رہا ہوتا ہے ۔ کورونا وائرس کے موقع پر مقامی پروگراموں کو مربوط اور موثر بنانے کی بجائے ختم کر دینا کسی بھی لحاظ سے دانشمندی نہیں ہے ۔ اس بندش سے ریڈیو سے وابستہ ہزاروں افراد جو کہ معاوضے پر کام کرتے تھے متاثر ہوئے ہیں ، اب ان کے گھروں میں فاقے ہیں ۔ سفید پوشی کا بھرم ان کو ہاتھ بھی نہیں پھیلانے دیتا اور حکومت کی طرف سے بھی کسی طرح کا کوئی ریلیف ان کو نہیں ملا ۔ ریڈیو کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ریڈیو پاکستان کی دنیا میں زیڈ اے بخاری بہت بڑا نام ہے ، زیڈ اے بخاری پطرس بخاری کے بھائی تھے ، انہی کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کو بہت مقام حاصل ہوا اور ان کی کتاب ’’ سرگزشت ‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ، آج خوش قسمتی سے وزارت اطلاعات کا قلمدان پاکستان کے عظیم شاعر احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز کے ہاتھ میں ہے اور معاون خصوصی پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر عاصم سلیم باجوہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ریڈیو کی عسکری اہمیت سے کسی بھی لحاظ سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، امید ہے کہ وزارت اطلاعات کے موجودہ دور میں ریڈیو کو ایک بار پھر سے زندہ کیا جائے گا ۔ ریڈیو ابلاغ کا موثر ذریعہ ہے ، جس کی آواز لہروں کے ذریعے پہاڑوں ، صحراؤں اور دریاؤں اور سمندر میں بھی سنائی دیتی ہے ۔ بر صغیر میں ریڈیو کا آغاز 1921ء میں ہوا ، ہمارے علاقے میں پشاور پہلا ریڈیو اسٹیشن ہے کہ 1930 ء کے اوائل میں لندن میں گول میز کانفرنس ہوئی ، جس میںسرحد کی نمائندگی کرنے والوں میں سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے ۔ وہاں ریڈیو کے موجد مارکونی بھی آئے ہوئے تھے ، سردار عبدالقیوم خان نے ان کو درخواست کی کہ وہ ہمارے صوبے کیلئے ریڈیو کا تحفہ دیں ، چنانچہ انہوں نے درخواست قبول کر لی اور پشاور میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا ۔ دہلی میں 1936ء میں ریڈیو کا قیام عمل میں آیا ۔ قیام پاکستان کے موقع پر کراچی میں پہلا ریڈیو اسٹیشن فوجی بیرک میں قائم کیا گیا ، 6جولائی 1951ء کو کراچی کا ریڈیو اسٹیشن اپنے بلڈنگ میں منتقل ہوا ، حیدر آباد ریڈیو اسٹیشن 17 اگست 1955ء قائم ہوا۔ ریڈیو اپنے منفرد تفریحی، معلوماتی، خبروں اور تبصروں کے پروگراموں کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے۔ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں ٹیلیویژن، ڈش انٹینا، موبائیل فون،انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقا کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھا اور یہ گمان کیا جارہا تھا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا اور اس کے سننے والے جو بہت متحرک ہیں وہ بھی تیزی سے بدلتی اس صورت حال میں مایوسی کا شکار تھے۔ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی آئی ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو تبدیل کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا۔ پہلے ٹرانسسٹر پر ریڈیو سنا جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی میڈیم وویو، شارٹ وویو اور پھر ایف ایم نشریات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو سننے والے سامعین کے ریڈیو سامعین کلب اور ریڈیو سامعین تنظیمیں قائم ہیں جو مقامی طور پر ان نشریاتی اداروں کو مل بیٹھ کر سنتے ہیں اور ریڈیو کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ کئی ریڈیو سامعین ان نشریاتی اداروں کی فریکیونسی پر آواز کے معیار کے حوالے سے ان نشریاتی اداروں کو آگاہ کرتے ہیں جو ان اداروں کی نشریات کی آواز کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، ایسے سامعین کو ڈی ایکسر کہا جاتا ہے اور ایسے سامعین کی جانب سے نشریاتی اداروں کو روانہ کی جانے والی رپورٹ کو ریسیپشن رپورٹ کہا جاتاہے، کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی نشریات کی بہتری اور اس کے معیار کو جانچنے کے لیئے ریڈیو سامعین کو ٹیکنیکل مانیٹر مقرر کیا ہوا ہے جنہیں باقاعدہ نشریاتی اداروں کی جانب سے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے جب کہ پروگراموں کی سامعین میں مقبولیت اور رائے اور ان میں بہتری کی تجاویز کے حصول کے لیئے پروگرام مانیٹر بھی مقرر کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو ٹیلنٹ پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، مگرافسوس کہ زبوں حالی کا شکار ہے ، حکومت فوری توجہ کرے اور فنڈ مہیا کرے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا صوبہ سرحد کے عبدالقیوم 1930ء میں ریڈیو لے آئے ، میں اپنے وسیب کی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ انگریز دور سے لیکر آج تک وسیب کے لوگ ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، نواب مشتاق خان گورمانی ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان اور وسیب کے سردار ، بھتار ، تمندار ، گدی نشین بر سر اقتدار رہے اور 1965ء کی جنگ کے بعد وسیب کی طرف سے ریڈیو اسٹیشن کے قیام کیلئے مطالبے بھی زور پکڑ گئے مگر کسی کو سمجھ نہ آئی ، بڑی مشکلوں کے بعد 21نومبر 1970ء کو ملتان ، 18 اگست 1975ء کو بہاولپور ، 15 جنوری 1981ء کو ڈیرہ اسماعیل خان اور2005ء میں میانوالی کے ریڈیو اسٹیشن قائم ہو سکے ۔ وسیب کے سیاستدانوں اور دیگر علاقوں کے سیاستدانوں کی سوچ میں کتنا فرق ہے ، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی وسیب کے سیاستدان بے ہوشی کی زندگی گزار رہے ہیں ، عمران خان کا تعلق میانوالی سے ہے مگرجب وہ اقتدار سے نیچے آئیں گے تو پھر شاید ان کو احساس ہو کہ مجھے کرنا چاہئے تھا ۔ بارِ دیگر عرض کروں گا کہ ریڈیو پاکستان کی بندش ختم کی جائے کہ آج بھی پوری دنیا میں اسکی بہت زیادہ اہمیت ہے ، خصوصاً کورونا جنگ کے موقع پر ریڈیو کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ نہایت ضروری ہے کہ بلاتاخیر تمام اسٹیشنوں کی نشریات کو بحال کیا جائے اور معاوضے پر کام کرنے والے صدا کاروں ، آرٹسٹوں کو فاقوں کی موت مرنے سے بچایا جانا چاہئے ۔ ریڈیو پاکستان کی آواز صدائے پاکستان ہے ، اسے بند نہیں ہونا چاہئے ۔