اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضلیت بخشی ہے اس زمین پر اٹھارہ ہزار سے زائد مختلف مخلوقات پائی جاتی ہیں ۔ جن کی تمام ضروریات کا بندوبست قدرت خود کرتی ہے اور جن کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اُن کا رزق کہاں سے اورکیسے آئے گا اُنہیں اپنے مالک اور خالق پر بہت ہی توکل ہے جو اُن کو بڑے بڑے پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں بھی رزق پہنچا دیتا ہے ۔ لیکن ہم انسان ہیں کہ ایک دوسرے کا حق مار کر ایک دوسرے کو تکلیف دے کر اپنے رزق اور اپنی عزت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ہم کروڑوں اربوںکما کرکہاں لے جائیں گے کیا ہم قبروں میں ساتھ لیں جائیں گے ؟ موت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بڑے تحفے سے کم نہیں کہ جب ایک انسان دن رات بڑے بڑے منصوبے بڑی بڑی جائیدادیں خرید کر تھک جاتا ہے ۔ اولاد اپنے والدین کو گھروں میں رکھنے کی بجائے اُن کو اولڈ ہوم میں داخل کرنے کے لیے ترکیبیں سوچنا شرو ع کر دیتی ہے ۔ یعنی اب وہ والدین جو ساری زندگی اپنی اولاد کے لیے کماتے رہے اب وہ ناکارہ ہو چکے ہیں ۔لہٰذا اُن سے جان چھڑائی جائے یورپ میں تو اِسی قسم کے واقعات عام ہیں اور اُن کے معاشرے میں اِس کو کسی قسم کا عیب نہیں سمجھاجاتا لیکن ہمارے معاشرے میں یہ نا قابل قبول ہے کہ ہم اپنے والدین سے دعائیں لینے کی بجائے اُن سے بد دعائیں لیتے رہیں۔ اصل میں پورا معاشرہ اِسو قت زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے چکر میں ’’دھن چکر ‘‘ بن چکا ہے۔ اِس وقت ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے شخص کے صرف دو ہی مقاصد ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کما سکے اور دوسرا سب سے بڑا بن کر رہے۔ حب جاہ کی یہ بیماری ہمیشہ انسان کو ذلیل اور رسوا کر کے رکھ دیتی ہے اِسی سے انسان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے کہ بس مَیں ہی ہوں اورمیرے سوا کوئی کچھ نہیںحالانکہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ آج سے چودہ سو برس قبل بڑی خوب صورت بات بیان کر گئے تھے کہ وہ انسان کیا فخر (تکبر ) کر سکتا ہے کہ جس کی پیدائش گندے پانی کے قطرے سے ہو اور پھرا ُس کی انتہا مردار پر ہو۔ یعنی جب وہ مر جاتا ہے ۔ دوسروں کے سہارے پڑا رہتا ہے ۔ دوسرے لوگ آکر اُسے غسل دیتے ہیں اُسے چارپائی پر اٹھا کر اُس کا جنازہ پڑھتے ہیں ۔پھر وہی لوگ ہی اُسے قبر میں رکھ کر اوپر سے قبر بند کر کے مٹی ڈال دیتے ہیں ۔یہ ہے ہماری اور تمام انسانوں کی اوقات کہ ایک لمحے میں ہم اپنی دولت ، طاقت اور حسن سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ نہ جانے کتنے جواں اور حسین چہرے پل بھرمیں موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ ایک بہت ہی غم زدہ کر دینے والا واقعہ گزشتہ روز ڈیرہ غازیخان شہر میں ملتان روڈ پر رونما ہوا جس میں ایک 19 سالہ خوبرو سجاول نامی نوجوان ہماری اپنی ہی غلطی اور غفلت کی وجہ سے جان بحق ہو گیا چونکہ ہمارے ملک اور معاشرے میں کوئی قانون اور ضابطہ ہے ہی نہیں جس کا جس طرح سے دل چاہتا ہے وہ شتر بے مہار بن کر اُسی طرح سے کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ ڈیرہ غازی خان میں ملتان روڈ پر خیابان سرور کے ساتھ ایک نجی کمپنی والوں نے صرف اور صرف اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ملتان روڈ پر اپنے دفتر کے سامنے غیر قانونی یوٹرن بنا لیا اور ہمارے محکمہ ہائی وے اور ضلعی انتظامیہ کو خبر تک نہ ہوئی ۔وہاں سے بڑی بڑی گاڑیوں نے بھی گزارنا شروع کر دیا پھر یوں ہوا کہ سجاول نامی نوجوان بھی اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ اُس کے دوست نے بھی اُسی انتہائی غلط بنائے گئے یوٹرن سے گزرنا چاہا تو دوسری طرف سے آنے والے تیز رفتار ٹرک کو یہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ آگے ایک یوٹرن بنا ہوا ہے ٹرک چونکہ مین روڈ پر اپنی رفتار سے آرہا تھا جبکہ یہ نوجوان اچانک یوٹرن کو کراس کر کے سڑک پر آگئے اور پھر ٹرک کی زد میں آنے سے 19 سالہ سجاول موقع پر جان بحق ہو گیا۔ والدین کو جب اچانک اِس حادثے کی اطلاع ملی تو دونوں اپنے حواس کھو بیٹھے اور آج چوتھے روز تک بھی ہوش میں نہیں آئے۔ شوشل میڈیا میں یہ خبر بار بار چلائی گئی اور اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہوئی لیکن افسوس کہ بے حس معاشرے کے شتر بے مہار مکینوں پر اِس کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ نہ ہی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیا اور نہ ہی غیر قانونی یوٹرن بنانے والے نجی دفتر والوں کے خلاف کسی قسم کی ہائی وے والوں نے کاروائی کی ہے لیکن دوسرے طرف ہماری اپنی نا ہلی اور صرف اپنے مفاد کے لیے سوچنے سے ایک مامتا کی گود اجڑ گئی اور ایک والد جو رزق حلال کی خاطر ایک کاٹن فیکٹری میں مزدوری کرتا ہے اُس کے بڑھاپے کا سہارا اُس سے چھین گیا۔ انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ ا ب خواب غفلت سے بیدار ہو کر فوری طور پر ملتان روڈ پر بنائے گئے درجنوں غیر قانونی یوٹرنز کو ختم کرائے ملتان روڈ پر بنائی گئی با اثر افراد کی ہاؤسنگ کالونیوں کے سامنے اپنی مرضی سے یوٹرن بنائے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے روزانہ ملتان روڈپر بائی پاس سے لے کر پل ڈاٹ تک جان لیوا حادثات ہو رہے ہیں ۔ اِن کو روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ پوری سختی کے ساتھ قانون پر عمل کرتے ہوئے بائی پاس چوک سے لے کر پل ڈاٹ تک اِن خونی یوٹرن کو ختم کروائے اور جن کی غلطی کی وجہ سے ایک نوجوان جان کی جان گئی ہے ۔ اُس کے ورثا کی فوری مالی امداد کرتے ہوئے غیر قانونی یوٹرن بنانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تا کہ آئندہ کسی کے ذاتی مفاد کے سامنے کسی ماں کی گود نہ اجڑ سکے اور نہ ہی کسی بے سہارا باپ کا چراغ گل ہو سکے ۔