دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہم کتنے پیچھے رہ گئے ہیں‘ اس کا اندازہ دو خبروں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ سنگا پور میں ڈرائیور کے بغیر بسیں چلنے والی ہیں۔ مسافر مزے سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں گے اور بس ڈرائیور کے بغیر چل رہی ہو گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیڈر علی زیدی جنہوں نے کراچی کو صاف ستھرا کرنے کی مہم کا بیڑہ اٹھایا تھا‘ بیان دیا ہے کہ بھائیو! کوئی مجھے بتائے کہ کراچی کا ٹنوں کچرا میں کہاں پھینکوں۔ کوئی پوچھے کہ برادر عزیز! یہ تو صفائی مہم میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور اب جو کچرا اکٹھا کر لیا ہے تو آسان سا حل یہی ہے کہ جہاں سے کچرا اٹھایا تھا‘ وہیں لے جا کر دوبارہ ڈال دو۔ رہے نام اللہ کا۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم وہیں کھڑے ہیں، جہاں ساٹھ ستر سال پہلے کھڑے تھے۔ پچھلے دنوں کسی دوست نے واٹس اپ پہ مجھے ایک ویڈیو بھیجی۔ ویڈیو پہ دو گلیوں کی تصویریں تھیں۔ ایک صاف ستھری گلی کا جس پہ درج تھا جہنمیوں کی گلی جو ظاہر ہے کسی یورپ یا امریکہ کی کسی گلی کا منظر ہو گا۔ دوسری تصویر ایک گندی سندی گلی کی تھی‘ تصویر کے ساتھ لکھا تھا جنتیوں کی گلی۔ یہ تصویر بھی ہمارے کسی شہر کی گلی ہو گی۔ ہم جو خود کو بحیثیت مسلمان جنت کا حقدار سمجھتے ہیں اور غیر مسلموں کو جہنمی تصور کرتے ہیں اس حدیث سے کون ناواقف ہو گا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ اس کے باوجود ہم اپنے آدھے ایمان کو نہایت اطمینان سے ضائع کر دیتے ہیں جب کسی گلی ‘ سڑک ‘ پارک یا فٹ پاتھ پر پان کی پچکاری‘ سگریٹ کے ٹوٹے‘ جنک فوڈ کے ڈبے یا ایسی ہی کوئی استعمال شدہ چیز پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ صفائی پہلے اندر ہوتی ہے پھر باہر نظر آتی ہے۔ ہنڈرڈ ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ ہمارے اندر کی صفائی کیسے ہو اور کون کرے؟ مولانا طارق جمیل جیسے مبلغین کی دل سوز نصیحتیں سننے والے بھی واہ واہ سبحان اللہ کے ڈونگرے تو برساتے ہیں لیکن ان کی تقریروں پر عمل کرنے کا خیال کتنوں کو آتا ہے۔ ہمیں یاد ہے برسوں پہلے ایک کثیر الاشاعت اخبار کے مالک ہمارے شعبے میں آئے تھے۔ طالب علموں نے انہیں گھیر لیا اورتابڑ توڑ سوالات شروع کر دیے۔ ایک طالب علم نے یورپ اور امریکہ میں آزادی صحافت کا حوالہ دے کر پوچھا کہ صحافت کی ایسی آزادی ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ترقی یافتہ ملکوں کی صحافت کا موازنہ اپنے ملک کی صحافت سے نہ کریں۔ وہ لوگ تو ہم لوگوں سے ہر میدان میں آگے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے قبرستان بھی ہماری قبرستانوں سے کہیں زیادہ خوبصورت‘ منظم اور صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کے افرادامریکہ و یورپ جا کر قانون پسند ‘ صفائی پسند اور مہذب اطوار کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہاں قانون کی عملداری ہے۔ سزا کا خوف ہے‘ جواب دہی کا احساس ہے۔ یہاں کوئی روکے ٹوکے بھی تو آسان سا جواب تیار ہے’’سب چلتا ہے یارا‘‘ تو یہ سب چلنے کا جو معاملہ ہے اسی کی وجہ سے ہم قوم بھی کہاں بنے ہیں۔ ایک بھیڑ ہیں کہ بھیڑ اور ہجوم بے مقصد اور بے منزل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے چینلوں میں ٹاک شوز میں ہوتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی ہی سنانے کی پڑی ہوتی ہے۔ دوسرے کی بات سننے کو وقت کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔ سی این این اور بی بی سی پر گفتگو کا کوئی پروگرام دیکھ لیجیے۔ ایسا سمع خراش منظر وہاں نظر نہیں آئے گا۔ کہتے ہیں ترقی و تہذیب کا سفر دو ایک سال میں طے نہیں ہوتا۔ یہ صدیوں کا سفر ہے۔ امریکہ اور یورپ بھی چند برسوں میں اس مقام تک نہیں پہنچے۔ ہمارے ہاں تبدیلی کے نعرے تو بہت لگتے ہیںاور آج بھی لگ رہے ہیں لیکن کیا فی الواقع کوئی تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے؟ کوئی شبہ نہیں کہ تبدیلی آ تو رہی ہے لیکن دبے پائوں۔ اس کا احساس یوں بھی نہیں ہوتا کہ تعمیر کا عمل نہایت سست اور تخریب کی یلغار اس تیزی سے ہے کہ لگتا ہے تعمیر و تبدیلی کا عمل جب تک مکمل ہو گا‘ تخریب و بگاڑ کے ہاتھوں ہم بالکل برباد ہو کر نہ جائیں۔ جو بحران ہمیں درپیش ہیں‘ ان کی نوعیت بھی رنگا رنگ ہے۔ اگر محض اخلاقی بگاڑ ہوتا تو بچائو کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی۔ یہاں تو سیاست و معیشت ‘ تہذیب و تعلیم اور معاشرت ‘ کاروبار اور تجارت کھیل‘ تفریح اور فنون لطیفہ ، سبھی کا حال احوال ایک جیسا ہی ہے۔ہاں ہم ایک اہم ترین شعبہ کا تذکرہ تو بھول ہی گئے اور وہ ہے مذہب کا شعبہ۔ خوش نصیبی سے ہمارا معاشرہ مذہبی معاشرہ ہے۔ چاہے عمل کے میدان میں ہم کتنے ہی غیر مذہبی سیکولر اور لبرل ہوں لیکن ہمارا عقیدہ ہمارا ایمان و یقین یہ سب مذہبی ہیں۔ مذہب سے ہماری عقیدت اس درجہ ہے کہ ہم مذہب پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن مذہب کا معاملہ آئے گا تو ہم اس کے لئے جان دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ لیکن مذہب کا معاملہ یوں پیچیدہ ہے کہ ہم مذہبی ہو کر بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مذہب ہمارے باطن میں تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے‘ اس تبدیلی کی طرف ہماری سرے سے توجہ نہیں ہے۔ خصوصاً دوسروں کے حقوق کا پاس و لحاظ کرنے کے معاملے میں ہم بہت بے حس اور خود غرض ہیں۔ اگر ہم سیرت و کردار کے کسی بحران کا شکار ہیں تو اس کا ذمہ دار مذہبی طبقہ بھی ہے۔ رہے جدید تعلیم یافتہ لوگ تو ان کی نظر میں دنیاوی کامیابی ہی ہر قیمت پر سب کچھ ہے۔ وہ آخروی زندگی اور موت کے بعد زندگی کے حساب کتاب کے کسی تصور پر ایسا کامل یقین ہی نہیں رکھتے کہ وہ اسے اپنی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔ جدید تعلیم ویسے بھی جس آزادی کا خوگر بنا دیتی ہے اس آزادی میں تعلیم یافتہ شخص اپنی ذات اور اپنے خاندان سے اوپر اٹھ کر سوچتا نہیں۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ جدید تعلیم آدمی میں اپنا کیریر بنانے کی ایسی للک پیدا کر دیتی ہے کہ اولاداپنے والدین کو چھوڑ کر امریکہ‘ یورپ یا مڈل ایسٹ سدھار جاتی ہے اور واپس آنے کا نام نہیں لیتی۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس کے حق میں بہت سی دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم سیاسی امور پہ اپنا جتنا وقت بحث و مباحثے میں صرف کرتے ہیں‘ کچھ وقت اس معاشرے کے حقیقی مسائل پر غورو خوض کرنے اور اس کی راہ نجات تلاش کرنے میں بھی لگائیں۔