امید اچھی بات کی اندیشہ غلط بات کا ہوا کرتا ہے لیکن کبھی کبھی دونوں اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں جیسے کہ اب ہوئے۔ حسب امید اور حسب اندیشہ حکومت جج والی زیر تنازع ویڈیو کا فرانزک کرانے سے اگلے روز ہی مکر گئی یعنی حسب روایت یو ٹرن لے لیا۔ فرانزک کرنے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن پھر کسی نے کہا کہ اونٹ پر جائو گے تو کوہان پر بیٹھنا پڑے گا۔ سو مکر گئی یا ڈر گئی۔ ڈرنے کی حالانکہ ضرورت نہیں تھی۔ فرانزک کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتی اور واجد ضیاء کو اس کا سربراہ۔ مثبت نتائج برآمد ہو ہی جاتے۔ بھانت بھانت کی تجویزیں آ رہی ہیں۔ حکومت تحقیقات کرائے، عدالتی کمشن بنایا جائے، عدالت نوٹس لے۔ طرح طرح کے جائزے اور تبصرے بھی آ رہے ہیں۔ ویڈیو جعلی ہے پر آواز اصلی ہے۔ ڈرائونے خواب تو ضرور آئے پر ان خوابوں کا سیاق و سباق نہیں مل رہا۔ بہت برس پہلے کا ایک ٹی وی ڈرامہ یاد آیا۔ اس کا ایک کردار غلط سلط اردو بولتا ،بے معنے الفاظ استعمال کرتا، محاوروں کی ٹانگ توڑتا لیکن اپنی بات کہہ دیتا۔ عتراض کرنے والے اس کی غلط زبانی پر اعتراض کرتے تو جواب دیتا، بات سمجھ میں آ گئی کہ نہیں۔ معترض اعتراف کرتا کہ ہاں آ گئی تو کہتا، پھر ایویں ای…… یہاں بھی کچھ ایسا ہے، ویڈیو کا سیاق ہے یا نہیں ہے، سباق ہے یا نہیں ہے لیکن بات سمجھ میں آ گئی ہے۔ پھر یہ سارے تبصرے، تجزئیے ٹاک شو ’’ایویں ای‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ بہر حال، ویڈیو والا معاملہ اتنا بڑا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ عوام کو کچھ بھی حیرت نہیں ہوئی۔ اور ہوتی بھی کیوں۔ شروع شروع میں سمجھدار کم تھے، پھر بڑھتے گئے، اب لگتا ہے ساری قوم سمجھداری سے ہم کنار ہو گئی۔ کیا ہوا ہے، کیوں ہوا ہے، سب جانتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ تحقیقات کرانے کا ایک وعدہ حکومت نے چیئرمین نیب کی بصیرت افروز ویڈیو آنے پر بھی کیا تھا۔ صرف وعدہ ہی نہیں، یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہ یہ ویڈیو مسلم لیگ ن کی بھونڈی سازش ہے۔اس کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن کرنے کی دھمکی بھی سنائی گئی تھی لیکن پھر ایک خاموش یوٹرن کے بعد سناٹے کا راز ہوا۔ بھونڈی سازش کرنے والوں کو معاف کر دیا گیا اور زیر تنازع ویڈیو کا تعلق بھی ’’نیب‘‘ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کو رپورٹیں مل گئی ہیں کہ ایسی ہی دو ویڈیوز اور بھی ہیں۔ مطلب آندھی آ چکی، اب طوفان کا انتظار ہے۔ ٭٭٭٭٭ سیاست کا منظر یوں ہے کہ پیپلزپارٹی کے بلاول اور مسلم لیگ ن کی مریم نواز، دونوں کے جلسے بہت بڑے بڑے ہو رہے ہیں خصوصاً مریم کے جلسوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایسا ڈرائونا خواب ہیں جس کا سیاق بھی موجود ہے اور سباق بھی۔ پھر بھی ایک فرق ہے اور خاصا معنے خیز، حفظ مراتب یا ہٹ لسٹ کا فرق مراتب واضح کرنے والا۔ یہ کہ بلاول کے جلسے ٹی وی پر چل جاتے ہیں، مریم کے نہیں چلتے۔ منڈی بہائو الدین کا جلسہ رات گئے ہوا، ٹی وی کھولا تو ہر طرف بلیک آئوٹ، جس نے روشنی کی ، اگلے روز بند پایا گیا۔ وجہ بتائے بغیر اور وجہ بتانے کی ضرورت بھی کہاں تھی۔ راج بھی اپنا، قانون بھی اپنا۔ چار سال پہلے کا زمانہ یاد آ گیا جب ایک ’’جلسے‘‘ کو 60دن تک 24گھنٹے کی کوریج دی گئی۔ شرکا ہوتے تھے، تب بھی لائیو کوریج، انہیں ہوتے تھے تو بھی لائیو کوریج۔ دوران خطاب اشتہار چلتے نہ خبر نامے۔ خطاب ختم ہوتا تب باری آتی 20مقرر ہوتے تو سبھی پورے کے پورے سنائے جاتے،کیا سنہری، یادگار زمانہ تھا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعلیٰ پنجاب نے فرمایا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی، تبھی حالات بدلیں گے۔ یعنی عوام فی الحال انکار ہی سمجھیں؟ خبریں ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے معاملے میں خود حکومت ہی نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ گویا وزیر اعلیٰ نے حفظ ماتقدم میں خوب ’’اصول‘‘ بیان فرما دیا۔چند روز پہلے وزیر اعلیٰ نے یہ دھمکی دے کر کہ خوشحالی عوام کے دروازوں پر دستک دینے والی ہے، لوگوں کو خوب ڈرایا۔ یعنی ابھی دستک دینی ہے، دی نہیں ہے تو خوشحالی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ ؎ ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر ’’خوشالی‘‘ بال کھولے ’’ناچتی‘‘ ہے خوشحالی نے خوشالی کا روپ دھارا، اس نئے لفظ کے معنے ہر جگہ دھما چوکڑی مچا رہے ہیں، لغت میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ تو عوام ڈر گئے کہ خدا نہ کرے، خوشالی نے دستک بھی دے دی تو کیا بنے گا۔ اس لحاظ سے وزیر اعلیٰ کے نئے بیان کو دھمکی کا رخ بدلنے کی کوشش کہا جا سکتا ہے اور اس کے معنے یوں بھی لیے جا سکتے ہیں کہ خوشالی آتے آتے ٹل گئی ہے لیکن یہ خوش امیدی خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت میں خوشالی کا سفر ابھی تو شروع ہی ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایف بی آر کے شبر زیدی غیر سیاسی آدمی تھے، لگتا ہے اب پوری طرح پی ٹی آئی کے رکن بلکہ رہنما بن گئے۔ پریس کانفرنس میں فرمایا، بتائو ہم نے کون سا نیا ٹیکس لگایا؟ ہم نے تو کوئی ٹیکس لگایا ہی نہیں۔ اسے کہتے ہیں صحبت پی ٹی آئی اثر کرد۔