وفاقی حکومت نے تعمیراتی صنعت کو فوری طور پر فعال کرنے‘ مال بردار گاڑیوں کے لئے شاہراہیں کھولنے‘فوڈ سپلائی چین بحال کرنے اور سرمایہ کاروں کو تعمیراتی شعبے میں رعایت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اگر اپنے مذموم کام سے باز نہ آئے تو ان پر سختی کی جائے گی۔کرونا وائرس کی وجہ سے تمام شعبے دبائو کا شکار ہیں اندریں حالات اگر بہتری کے لئے کچھ تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں تو ان سے ضرور رجوع کیا جانا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے ابتدائی فیصلوں پر نظرثانی اور بنیادی احتیاطی تدابیر کو چھیڑے بغیر عوام کے لئے کچھ آسانیاں بہم ہو سکتی ہوں تو ان سے فائدہ اٹھانے میں حرج نہیں۔ کرونا وائرس کی ابتدائی رپورٹس سے لے کر اب تک حکومت نے مکمل سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ فیصلے غلط یا درست ہونے کا تعلق تجربے سے ہے۔ بہرحال وزیر اعظم ہر روز صورت حال کا جائزہ لے کر نئے حالات کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں۔ تعمیراتی اور ٹرانسپورٹ شعبے کو فعال رکھنے سے لاکھوں افراد کا روزگار بچایا جا سکتا ہے۔اس لئے یہ فیصلہ موجودہ حالات میں اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان بھر میں لاک ڈائون ہے۔ یہ لاک ڈائون ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت عوام سے درخواست کر رہی ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر گھروں میں رہیں اور اجتماع سے پرہیز کریں۔ شروع میں عوامی ردعمل لاپرواہی پر مبنی دکھائی دیا جس پر پولیس اور فوج کو ہدایت کی گئی کہ وہ دفعہ 144اور حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کریں۔ عوام کے عمومی مزاج کو دیکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ سڑکوں کو ہر قسم کی پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے لئے بند کر دیا جائے۔ اس فیصلے کے اچھے نتائج برآمد ہوئے اور لوگوں کی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل و حرکت رک گئی لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ گڈز ٹرانسپورٹ بند ہونے سے کئی علاقوں میں دودھ‘ چینی‘ آٹے اور گھی کی قلت پیدا ہو گئی۔ یہ تمام اشیا ملک میں وافر دستیاب ہیں مگر ٹرانسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی قلت دکھائی دینے لگی۔نظر ثانی شدہ فیصلے سے مال بردار گاڑیاں ایک شہر سے ضروریات زندگی دوسرے شہر پہنچا سکیں گی۔ ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں حکومتی اقدامات میں مزید ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔ یہ بات تسلیم کہ تمام اقدامات کا بنیادی مقصد سماجی فاصلہ بحال رکھنا اور عوام کی زندگی کو غیر ضروری پابندیوں سے بچانا ہے۔ وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں دیہاڑی دار افراد کی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ سردست ہم جس نوع کا لاک ڈائون دیکھ رہے ہیں اس میں دیہاڑی داروں کا روزگار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے سامنے بھارت میں بدنظمی کی مثال ہے۔نئی دہلی سے لاکھوں افراد اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس دہلی میں رہنے اور کھانے کا انتظام نہیں۔ یہ لوگ پیدل واپس جا رہے ہیں۔ اس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے صرف دیہاڑی دار متاثر نہیں ہوئے وہ لوگ بھی مشکل میں پھنس گئے جو کسی ضروری کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے۔بہت سے لوگ کراچی سے پشاور یا لاہور جانا چاہتے ہیں۔ لاہور‘ اسلام آباد اور دیگر شہروں سے کثیر تعداد میں مسافر کسی اور منزل کو روانہ ہونا چاہتے ہیں لیکن بسیں‘ ریل اور ویگنیں بند ہیں۔ اس سے عام آدمی متاثر ہوا ہے۔ پھر بسوں ویگنوں اور ٹرین کی بات نہیں ہوائی جہاز بھی بند کر دیے گئے۔ بہتر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ محکمہ صحت کے ماہرین کی رائے سے بسوں میں اتنی سواریوں کو بیٹھنے کی اجازت دی جائے جن کے سوار ہونے سے افراد کے درمیان ضروری فاصلہ برقرار رہے۔ حکومت ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ساتھ مل کر کم سواریوں کی صورت میں کرایوں میں کچھ اضافہ کر سکتی ہے یا پھر سرکاری خزانے سے کچھ مدد کر کے لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے میں مدد دی جا سکتی ہے۔ پنجاب حکومت نے وبائی امراض سے بچائو کا آرڈیننس جاری کیا ہے۔اس آرڈیننس میں ایسے احکامات موجود ہیں جن پر عمل کرنے سے شہریوں کو کرونا سے بچایا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین اور قانون کے فریم ورک میں رہ کر ہی حکومت اصلاح احوال کا انتظام کرتی ہے۔ حکومت کے لئے یہ امر مشکل ہو گا کہ وہ نجی ہسپتالوں کو سرکاری ہسپتالوں کے برابر فیس وصولی کی ہدایت کرے۔سرکاری ہسپتال حکومتی خزانے سے چلتے ہیں جبکہ نجی ہسپتال اور لیبارٹریز کے مالک شہری ہوتے ہیں جو بہتر سہولیات پر اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیںاس آرڈیننس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حالات مشکل ہیںمگر پاکستان کے عوام حوصلہ مند ہیں اور صبر کے ساتھ اس وبا کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت نے اب تک جو فیصلے کئے ان کی ٹھوس وجوہات رہی ہیں۔ ابتدائی ردعمل کے وقت یقینا ہمیں خطرے کے حجم اور اپنی صلاحیت کا درست اندازہ نہیں تھا۔ آئسولیشن وارڈز بننے‘ دوست ملک چین سے ماہر عملے اور ضروری آلات و سامان موصول ہونے اور انتظامی سطح پر فیصلوں پر نظرثانی کے نظام نے یہ گنجائش تاحال برقرار رکھی ہے کہ وزیر اعظم ان شعبوں کی نشاندہی کر کے انہیں متحرک کرنے پر مشاورت کریں جو قومی معیشت اور روزگار کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ تعمیراتی شعبے سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے یہ شعبہ ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ فعال بنایا جا سکے تو ناصرف دیہاڑی دار افراد کے مسائل کم ہو سکتے ہیں بلکہ سیمنٹ‘ اینٹ‘ سریا‘بجری‘ ریت‘ ٹائل ‘ فرنیچر اور لکڑی کے کام سے وابستہ افراد بھی بے روزگار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔