کوئی پوچھے ہم سب سے زیادہ کس بیماری کو پھیلاتے ہیں تو جواب ہو گا‘سنی سنائی تاریخ۔ سندھ میں چند درجن لوگوں نے راجہ داہر کا دن منایا۔ راجہ داہر مسلمانوں کا ولن ہے۔ ضروری نہیں غیر مسلم سندھی اس سے لاتعلق ہو جائیں۔ ہندوستان کی حکومت کو ہم مسلمان حکمرانوں کی یادگاریں محفوظ رکھنے کا کہتے ہیں لیکن خود الٹ کرتے ہیں۔کچھ اسی طرح کی صورت حال رنجیت سنگھ کی نسبت پنجاب میں ہے۔ رنجیت سنگھ سے پہلے لاہور پر تین سکھ سرداروں کی حکومت تھی۔ یہ جو قلعہ گوجر سنگھ کا علاقہ ہے اس پر گوجر سنگھ قابض تھا ‘اس نے قلعہ بنوایا۔ کئی پرانے مکانات اور علاقہ آج بھی اس کی یادگار ہیں‘ لہنا سنگھ اور گوجر سنگھ نے 1765ء میں احمد شاہ درانی کے ساتویں حملے کے بعد اس کے جاتے ہی دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ لاہور کا رخ کیا۔ دونوں کا تعلق بھنگی مثل سے تھا۔ بھنگی سرداروں نے شاہی قلعہ کے باغبانوں سے ساز باز کر کے ساتھ ملا لیا۔ اگلے روز احمد شاہ درانی کا مقرر کردہ حاکم لاہور امیر سنگھ بخشی 5ہزار بندوق بردار لے کر قلعہ کی طرف بڑھا۔ اسی دوران مزنگ پر قابض تارا سنگھ شہر میں آن گھسا اور امیر سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ دوپہر کو موضع نیاز بیگ کا سردار سوبھا سنگھ بھی آن پہنچا اور شاہ عالمی دروازے کے قریب پڑائو کیا۔ ان سکھ سرداروں نے پورے لاہور کو آپس میں بانٹ لیا۔ مساجد‘ مزارات مقدس کو لوٹ لیا گیا۔ مسلمانوں کی عزت محفوظ نہ تھی۔ گوجرانوالہ سے سردار چڑت سنگھ لوٹ مار میں سے حصہ لینے آیا۔ یہ لوگ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ کچھ دینا چاہتے تھے آخر زم زمہ توپ پیش کی۔ یہ توپ اب عجائب گھر کے سامنے مال روڈ پر کھڑی ہے۔ روایت ہے کہ 1767ء تک یہ تین سکھ سردار لاہور پر حکمران رہے‘ ان کا دور وحشت اور بربریت کی بھیانک یادگار قرار دیا جاتا ہے۔ قبروں اور مغلیہ عمارات سے سنگ مر مر ‘ قیمتی پتھر اور دھاتیں اتار کر فروخت کر دی گئیں۔ احمد شاہ درانی کی وفات کے بعد اس کا جانشین شاہ زماں 1798ء میں آخری بار لاہور آیا تب تک تینوں سکھ سردار مر چکے تھے اور ان کی اولاد اسی طرح ظلم کی حکومت کر رہی تھی۔ قصور کا پٹھان سردار نظام الدین خان شاہ زماں سے آ ملا۔ اس نے سالانہ خراج کے بدلے پنجاب حوالے کرنے کا کہا ۔اس دوران بھائی کے انتقال کی خبر پر شاہ زماں واپس چلا گیا اور پھر واپس نہ آ سکا۔ جلدی میں شاہ زماں سیلاب کی وجہ سے اپنی کچھ توپیں جہلم کنارے چھوڑ گیا۔ ان بارہ میں سے آٹھ توپوں کو رنجیت سنگھ نے نکلوا کر کابل بھجوا دیا۔ شاہ زماں نے خوش ہو کر اسے لاہور پر حکومت کرنے کی اجازت دیدی۔ رنجیت سنگھ نے لاہورپر قبضے کی کوشش شروع کر دی۔ نظام الدین خاں والئی قصور نے مسلمان اکابر سے ملاقاتیں کر کے شہر پر قبضہ کرنا چاہا مگر سکھ جاٹوں نے اس کا راستہ روک لیا۔ رنجیت سنگھ نے قاضی خان کو خفیہ مشن پر لاہوربھیجا وہ میاں محمد عاشق‘ میاں جان محمد‘ میر محکم دین نواں کوٹی‘ عابد خاں اٹاری والا‘ محمد عظیم‘ حافظ محمد باغبان پوریہ‘ مہر شادی قطار بند‘ احمد خان بھنڈر‘ حکیم حاکم رائے‘ بھائی گربخش سنگھ‘ محمد باقر‘ محمد طاہر‘ مولوی محمد سلیم اور مفتی محمد مکرم سے ملا۔ دو کے علاوہ سب مسلمان تھے۔ چار جولائی 1799ء کو رنجیت سنگھ لاہور آ پہنچا۔ جس مقام پر آج پنجاب پبلک لائبریری ہے وہاں رنجیت سنگھ کی فوج نے قیام کیا۔ جن لوگوں نے دروازہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ پورا نہ کر سکے۔ آخر 6جولائی کو لوہاری دروازے سے شہر میں داخل ہو گیا۔ رنجیت سنگھ نے شہر میں باقاعدہ حکومت قائم کی اور اپنی سلطنت دریائے ستلج تک تمام پنجاب‘ کشمیر‘ پشاور‘ ہزارہ اور ڈیرہ جات کے علاقے فتح کر لئے۔وہ جمرود سے پھلور تک تمام علاقے کا بلا شرکت غیرے حاکم تھا۔ رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو یہ شہر جو تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا برباد ہو چکا تھا۔ شہر سے باہر میلوں تک شکستہ عمارات‘ اجڑے محلے اور شاہی عمارتوں کے کھنڈر تھے۔ ان کھنڈروں کے درمیان کئی قومی یادگاریں‘ باغ ‘ مقبرے مسجدیں اور خانقاہیں موجود تھیں۔ اس کا چالیس سالہ دور حکومت خوشحالی کا طویل زمانہ تھا۔ رنجیت سنگھ نے قصور کے پٹھان مسلمان حکمران کے پنجاب پر حکومت کرنے کا خواب چکنا چور کر دیا‘ اس نے ملتان اور سرائیکی علاقوں پر حملے کئے۔ یوں مقامی حکمرانوں نے اس کے خلاف اپنے علاقے میں نفرت پھیلا دی جو آج بھی موجود ہے۔ رنجیت سنگھ نے بادشاہی مسجد کی بے حرمتی کی‘ اس کے بعد انگریزوں نے بھی ایسا ہی کیا لیکن چونکہ لاہور کے مسلمان تین سکھ غارت گروں کا زمانہ دیکھ چکے تھے اس لئے وہ رنجیت سنگھ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ لاہور اور اس کے نواحی اضلاع میں اسی لئے رنجیت سنگھ کو مذہب کی بجائے ایک تحفظ فراہم کرنیوالے حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔راجہ داہر کے متعلق معلومات کی صحت اطمینان بخش نہیں۔ شاید اس معاملے کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا کوئی خاص مقصد ہو۔ سوشل میڈیا پر جو تکرار ہو رہی ہے اس میں بہت کچھ جھوٹ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے محمد بن قاسم کے لشکر سے معروف صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کو بچایا‘ کبھی بتایا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے بنو امیہ کے ظلم سے پریشان کچھ قریشیوں کو اپنے ہاں پناہ دی جس پر اسے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ باتیں بہت سی ہیں لیکن ناپسندیدہ شخصیات پر چونکہ تحقیق ہمیں پسند نہیں اس لئے ہم دوسروں کو بات نہ کرنے کا کہتے رہتے ہیں اور پھر کچھ مدت گزرنے پر اس ولن کے خاموش حامی کوئی بھی کہانی بنا کر ہمارے تصورات کو الٹ پلٹ کرنے آ جاتے ہیں۔ راجہ داہر مسلمانوں کا دشمن ہو سکتا ہے‘ ممکن ہے برہمن ہونے کے باوجود اس نے اپنے مذہبی کوڈ کو توڑ کر اپنی بہن سے شادی کر لی ہو‘ ممکن ہے اس نے عرب تاجروں کے اہل خانہ کو قید کر لیا ہو‘ جو خرابی کسی ولن کی شخصیت کو ٹیڑھا ثابت کر سکتی ہے ممکن ہے وہ سب ٹیڑھ پن راجہ داہر میں ہو لیکن یہ تو سچ تسلیم ہو کہ وہ سندھ کا حکمران تھا اور سندھ کے لوگ جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ راجہ داہر کو پسند کرتے تھے ایسا نہ ہوتا تو عظیم نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم جدید منجنبقیں استعمال کئے بنا شہر پر قابض ہو جاتا۔ رنجیت سنگھ بھی تو صدیوں بعد لاہور پر عام سے جنگی ہتھیاروں کی مدد سے قابض ہو گیا تھا۔ ہماری پسندیدگی میں علاقے کا، مٹی کا تعصب ضرور ہوتا ہے۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ صرف ہیرو نہیں ولن کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔