راجہ داہر سندھ کا آخری ہندو حکمران تھا۔ وہ سندھ کے برہمن خاندان میں پیدا ہوا۔ راجہ داہر نے حکمران بننے کے بعد اپنی سلطنت کو وسیع کرنا شروع کیا۔ نزدیک کئی چھوٹی ریاستیں اس کے رشتہ داروں کی تھیں۔ اس نے اپنے بھتیجے چچ کو قتل کرا دیا۔ اس نے اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کی جو کہ سرہند لوہانہ نامی ایک سردار کی بہن تھی‘ سندھ میں عربوں کی فتوحات کی سب سے پرانی دستاویز چچ نامہ کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب محمد بن قاسم کے رشتہ دار خاندان نے لکھی اور اسے عربی سے فارسی میں ترجمہ 1216ء میں محمد علی بن حامد بن ابوبکر کوفی نے کیا۔ راجہ داہر کو ایک جوتشی نے بتایا کہ اس کی بہن چندرا کی شادی جس شخص سے ہو گی وہ اروڑ کی سلطنت کا حکمران بنے گا۔ اس پیش گوئی کے زیر اثر اس نے چندرا سے شادی کر لی۔ اس شادی سے خاندان میں کئی تنازعات کھڑے ہو گئے اور بھائیوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ چچ نامہ میں گورنر بصرہ حجاج بن یوسف کی طرف سے راجہ داہر کے خلاف لشکر کشی کی جو وجہ بیان کی گئی اس کے مطابق راجہ داہر کے لوگوں نے سراندیپ (سری لنکا) کے بادشاہ کی طرف سے خلیفہ کو بھیجے گئے تحائف دیبل کے قریب بحری جہاز سے لوٹ لئے۔ اس پر حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو خط لکھا۔ راجہ داہر نے اس پر کان نہ دھرے۔ جس پر حجاج نے ایک مہم ناکام ہونے کے بعد دوسری بار لشکر کو محمد بن قاسم کی قیادت میں روانہ کیا۔ راجہ داہر اپنی بہن سے شادی اور بھتیجے کو قتل کر کے خاندان میں متنازع ہو چکا تھا۔ علاقے کی مختلف اقوام بھی اس کے ظلم اور لالچ کے باعث اس سے متنفر ہو چکی تھیں۔ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ستائے تمام قبیلوں اور بااثر خاندانوں کو اپنا اتحادی بنا لیا۔ اس کے زوال کی ایک وجہ برہمن ذات کے ہندوئوں کا اس کی سرپرستی میں دیگر کمزور اقوام پر ظلم ہے۔ کہہ سکتے ہیں وہ برہمنوں کی بالادستی کے لیے دیگر اقوام حتیٰ کہ کمتر سمجھے جانے والی ہندو برادریوں کی زندگی تنگ کیے ہوئے تھا۔ محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے مابین فیصلہ کن معرکہ موجودہ نواب شاہ شہر کے قریب ہوا۔ وہ مارا گیا اور اس کی بیوی نے ہندو روایات کے مطابق خود کو ستی کر لیا۔ رنجیت سنگھ نے تین سکھ غارت گروں کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اگرچہ مغلوں کی طرح فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اور لاہور کی مسلم فقیر فیملی کے دو افراد کو اپنا وزیر بنایا لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ اس کے دور حکومت میں بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا‘ بہت سے اولیائے کرام کے مزارات پر لگا قیمتی پتھر اکھیڑ کر سکھ گوردواروں کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔ سلطنت میں بظاہر مساوی سطح پر معاملات ہوتے لیکن ہر کام میں سکھوں کو پہلی ترجیح دی جاتی، پھر ہندوئوں اور اس کے بعد مسلمانوں کی باری آتی۔ مسلمانوں کو خدمات کے کام سونپے گئے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں عورت بازی عام ہو گئی۔ وہ خود بھی کئی طوائفوں پر عاشق ہوا۔ جس کے لاہور میں ایسے کئی آثار اب بھی موجود ہیں۔ محققین کا ایک حلقہ کہتا ہے کہ اگر والئی قصور نظام الدین خان اسے شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا تو اٹھارہویں صدی میں پنجاب مسلمانوں کی الگ سلطنت کی شکل میں تاریخ کے نقشے پر ابھرتا۔ اب بات آتی ہے کہ ان دونوں شخصیات کو غیر ضروری طور پر کون لوگ ابھار رہے ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان میں فکری انتشار پیدا کر کے یہاں کے سوچ بچار کی صلاحیت رکھنے والوں کوبہکایا جا سکتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے پورے برصغیر میں ہندو نقوش کو ازسرنو نمایاں کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔2018ء میں بھارتی حکومت نے ولبھ بھائی پٹیل کا دیو قامت مجسمہ نصب کیا۔ اسی طرح چند صدی قبل کے انتہا پسند مرہٹہ ہندو حکمران شیوا جی کا مجسمہ ممبئی میں ساحل کے قریب ایستادہ کیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سندھ میں کئی بارکچھ مخصوص گروپوں اور شخصیات نے راجہ داہر کا مجسمہ نصب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ راجہ داہر کو ہیرو سمجھنے والے افراد کا عمومی فکری دھارا پاکستان مخالف رہا ہے اس لئے جب بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا یہ بھارت نوازوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ پاکستان کے مخالف سندھی سیاستدان جی ایم سید نے 1967میں ایک کتاب لکھی(سندھ جا سورما) اس کتاب میں انہوں نے راجہ داہرکو سندھ کے پانچ ہیرو میں شامل کیا۔ جی ایم ایم سید کا نکتہ نظر پاکستان کی قومی سوچ کو ناقص قرار دے کر چیلنج کرناتھا۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ راجہ داہر کو ہیرو بنانے کی کوشش میں جی ایم سید کی سیاست ختم ہو گئی۔ اب ان کی اولاد کو ووٹ لینے کے لئے اپنے باپ کے نظریات کو مسترد کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کالم میں بعض چیزیں اختصار کے باعث واضح نہ ہو سکیں۔ ہیرو قوم کے نظریات اور مفادات کے محافظ ہوتے ہیں۔ سماجی ولن کی شکل سیاسی ولن سے مختلف ہو سکتی ہے۔ جو لوگ راجہ داہر اور رنجیت سنگھ کی آڑ میں پاکستانی شناخت پر حملہ آور ہو رہے ہیں ان کے عزائم پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں صلہ رحمی اور دوسروں کی رائے کو احترام دینے کا عمل قابل تعریف رہا ہے۔ لیکن ان کوششوں کو کبھی پذیرائی نہیں ملی جن سے کسی آزاد اور خود مختار قوم کو اپنے ہیرو بدلنے کے لئے مسخ اور تحریف شدہ تاریخ سنائی جانے لگے۔