خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے میں راحت اندوری سے کبھی نہیں ملا مگر وہ شعری منظر پر اس طرح سے چھائے ہوئے تھے کہ سماعتوں سے اتر کر دل میں سما گئے۔ انہوں نے اپنی طرحدار شاعری سے اک زمانے کو متاثر کیا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ مجھے شاعر پرفارم کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے کی شاعری اداکاری نہیں ہوتی یہ ایک نہایت سنجیدہ عمل ہے مگر کیا کریں کہ انور مسعود کی طرح راحت اندوری بھی اس حوالے سے استثنیٰ تھے کہ ان کا شعر پکڑتا تھا۔ ان کا جذبہ پوری کیفیت کے ساتھ شعر میں ڈھلتا تھا اور وہ شعر کو خود پر طاری کرتے، حاضرین و سامعین کو اپنے شعر کی شکل دکھاتے تھے۔ الفاظ میں صورت گری آسان نہیں۔ ان کے ہاں ادبیت کے ساتھ سماجی اور سیاسی پہلو پوری قوت کے ساتھ بیان ہوتے تھے۔ شاعری برائے شاعری ہی نہیں برائے زندگی بھی تھی اور پھر بھارت میں رہ کر حق گوئی بھی آسان نہ تھی وہ اس میں سرخرو ہوئے: لگے آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے ہمارے منہ سے جو نکلے وہی سچ ہے ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے کل پہلے افشاں شعور سے پتہ چلا کہ راحت اندوری کرونا سے متاثر ہو گئے پھر کچھ دیر بعد اقتدار جاوید سے معلوم ہوا کہ شاعری کا یہ درخشندہ ستارا محو ہو گیا۔ اس کے بعد تو سوشل میڈیا پوسٹوں سے بھر گیا۔ پوری دنیا میں ان کے مداح ہیں۔ وہ بنیادی طور پر اردو کے پروفیسر تھے۔ 1950ء میں ان کی پیدائش گویا 70 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ لاریب انہوں نے بین الاقوامی شہرت پائی۔ وہ ایک کامیاب شاعر تھے کہ ان کے ہاں انسانی اقدار تو ملتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ مزاحمتی اور انقلابی شاعری انہیں ایک بیدار مغز شاعر ثابت کرتی ہے: جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولے سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے دروازے پر لکھا ہوا ہے سچ بولو انہوں نے ڈاکٹریٹ بھی کر رکھی تھی مگر ان کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ کچھ جچتا نہیں۔ وہ سراپا سخن تھے اور وہ اپنے فن کو لئے ملکوں ملکوں پھرتے رہے۔ مشاعرہ ایک الگ دنیا ہے اور مشاعرے کے شاعر ایک خاص طرح کے شاعر ہوتے ہیں جو اپنے ترنم وغیرہ سے بھی کئی کمیاں پوری کر جاتے ہیں۔ پھر اس میں سب سے زیادہ تعلقات اور جوڑ توڑ کی پوری سیاست ہوتی ہے مگر راحت اندوری کا شعر بولتا تھا۔ وہ اردو کی ایک خاص تہذیب کا نمائند ہ تھے ایک مرتبہ کسی نے آواز لگائی اور انہیں ہوٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہوٹنگ تو شاعر کا حصہ ہوتی ہے مگر کسی نے بدتمیزی کا جملہ کہا تھا اس پیارے سے شاعر نے سٹیج سے کہا، یار دیکھو میں چالیس سال لگا کر اس مقام پر پہنچا ہوں جہاں سے میں غزل سنا رہا ہوں اور تمہارے مقام پر آنے میں مجھے ایک منٹ لگے گا۔ میں اپنا سفر ضائع نہیں کر سکتا۔ کیسی عجیب بات کہ کچھ روز قبل ہی وہ ایک غزل سنا رہے تھے جو لوگوں نے ان کی وفات پر وائرل کی: افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے اے موت تونے مجھ کو زمیندار کر دیا وہ ہندوستان میں ہونے والے اس تشدد سے بخوبی آگاہ تھے جو مسلمانوں پر روا رکھا جا رہا ہے دیکھا جائے تو وہ بھارتی عوام میں تعصب سے ماورا مقبول تھے۔ وہ حق سچ کی بات کہتے تھے مگر ایک سطح پر آ کر انہوں نے مودی حکومت کو بے نقاب کرنے کے لئے بھی شاعری کو ذریعہ بنایا۔ انہیں اپنے تاریخی حسب و نسب پہ بھی مان تھا اور وہ دلیری سے شعروں میں اپنا بیانیہ بیان کرتے تھے: ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں ایک اور خوبصورت شعر ان کا عنبرین حسیب نے بھیجا ہے: روز وہی ایک کوشش زندہ رہنے کی مرنے کی بھی کچھ تیاری کیا کرو اس خیال سے مجھے اپنے مرحوم دوست محسن نقوی یاد آ گئے کہ انہوں نے کہا تھا: ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر بہرحال راحت اندوری کے حوالے سے بہت کچھ دیکھا جائے۔ ابھی کسی نے انہیں طوطیٔ ہند لکھا۔ واقعتاً وہ چہکتے تو تھے۔ ان میں حس مزاح بھی تھی ایک زندگی سے بھر پور شخصیت ہنستے مسکراتے ہوئے ایک حوصلہ مند شخص۔ خاص طور پر مکار ہندوئوں کے درمیان رہ کر حق کا علم اٹھانا آسان نہیں۔ انہوں نے بھارت کے ’’اندور ‘‘ کو بھی امر کر دیا ویسے تو یہ لاہور کا ہم قافیہ بھی ہے۔ ارسلان اللہ خان نے غالباً راحت اندوری کی تاریخ لکھی ہے: جا بسے خلد راحت اندوری اٹھ گیا ایک شاعر بے باک بھارت کی موجودہ صورت حال میں وہاں کے مسلمان نہایت مشکلات کا شکار ہیں اور ان پر اب اقبال اور قائد کا وژن آشکار ہو رہا ہے۔ کچھ کو تو اس کاقلق پہلے بھی تھاجیسے کہ وہاں کے عرفان صدیقی کی شاعری سے بہت کچھ ملتا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں راحت اندوری کی شاعری سے وہ کرب اور دکھ محسوس کیا جا سکتا ہے: نیا سورج نکالا جا رہا ہے دیے میں تیل ڈالا جا رہا ہے ہمیں بنیاد کا پتھر ہیں لیکن ہمیں گھر سے نکالا جا رہا ہے جنازہ پر مرے کہہ دینا یارو محبت کرنے والا جا رہا ہے