لاہور (سپیشل رپورٹر،92 نیوزرپورٹ) ہراسگی کا جھوٹا الزام لیکچرار کی جان لے گیا،ایم اے او کالج لاہور کے لیکچرار افضل محمود پر طالبہ نے ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا، الزام غلط ثابت ہونے پر کالج انتظامیہ نے تصدیقی خط جاری نہ کیا، دلبرداشتہ افضل نے 9 اکتوبر کو زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔افضل محمود کی لاش کے پاس ایک خط بھی ملا ۔ خط انہوں نے اپنی سینئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمٰن کو لکھا تھا، تحریر میں لکھا گیا جب تک مجھے تحریری طور پر الزام سے بری نہیں کیا جاتا یہ سمجھا جائے گا کہ میں برے کردار کا انسان ہوں، تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے ،خط میں لکھا گیا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے ، میری بیوی بھی آج مجھے بدکردار قرار دے کر جا چکی ، میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہاہوں، میری موت کے بارے میں کسی سے نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔پولیس نے بیوی اور بھائیوں سے قانونی کاغذی کاروائی کے بعد لاش بغیر پوسٹ مارٹم کے ورثا کے حوالے کردی ۔افضل محمود نے خط کے آخر میں لکھا کہ اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے ۔ پروفیسر عالیہ کے مطابق ماس کمیو نیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ زوبیہ نسیم نے شکایت کی تھی کہ سر افضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔ جب کہ انکوائری میں لڑکی نے بتایا کہ اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سر نے ہمارے نمبر کاٹ لیے ۔ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انہوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت کا اس معاملے پر موقف ہے کہ افضل ان کے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔