تاجروں نے ہڑتال کی۔ کس کے خلاف؟ اس ریاست کے خلاف جس کے وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ اب ہر صاحب استطاعت کو ٹیکس دینا ہو گا۔ سیاست کا ایک بیانیہ ریاست مخالف ہے۔ یہ بیانیہ پاکستان میں کئی شکلوں میں ابھرا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے جب پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تو اس وقت صورتحال مختلف تھی۔ ملک آزاد ہوا تو ان دونوں جماعتوں کی قیادت نے آئین پاکستان کے سامنے خود کو جھکا دیا۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ بھی کچھ قوتیں پاکستان کے قیام کی مخالف تھیں۔ خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمتگار تحریک اور پنجاب کی اس وقت کی حکمران یونینسٹ پارٹی اس وجہ سے غیر مقبول ہوئیں کہ وہ آزادی کے بعد والے پاکستان کے ساتھ چل نہ سکیں۔ اے این پی کے معاملے میں کچھ دیگر پہلو بھی اہم ہیں اس وجہ سے قوم پرستوں نے اسے اب تک زندہ رکھا۔ سندھ کی جئے سندھ اور اس کے سربراہ جی ایم سید تاریخ کا حصہ ہیں۔ قائد اعظم کی مخالفت خاکسار تحریک کے علامہ عنایت اللہ مشرقی کو لے ڈوبی۔ کراچی میں تین عشروں تک ہر چیز پر اپنا اقتدار رکھنے والے کے خلاف ریاستی اداروں کے پاس بہت سا مواد اور شواہد تھے مگر جونہی کراچی کے لوگوں پر کھلا کہ یہ مڈل کلاس کے اردو بولنے والوں کے حقوق کی جدوجہد نہیں ملک کے خلاف سازش ہے‘ وہ طاقتوراس طرح بے اختیار ہوا کہ خالی کیمرے کے سامنے تقریر کر کے ماضی کو یاد کرتا ہے۔ جس وقت بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہا گیا تب اسامہ بن لادن کا دیا گیا پیسہ سیاسی نظریات کی صف بندی اور صورت گری کر رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی موت کی وجہ سے پوری فوج کو قصور وار سمجھتی تھیں۔ بھٹو صاحب کی موت کی سازش میں وہ امریکہ کا ہاتھ بتایا کرتی تھیں۔ پھر ان کے موقف میں لچک پیدا ہوئی۔ انہوں نے امریکہ کی عالمی طاقت کا عزت کے ساتھ ذکر کرنا شروع کیا۔ نجکاری‘ انسانی حقوق اور ورلڈ آرڈر پر ان کی پالیسیاں امریکہ کی حکمت عملی سے ہم آہنگ تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے بطور ادارہ فوج کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے چند جرنیلوں کو بھٹو صاحب کے خلاف سازش کا کردار تسلیم کیا۔ اس سے بے نظیر بھٹو اور ان کی سوچ کو اندرون ملک پذیرائی ملی۔10اپریل 1986ء کو جب وہ لاہور ایئر پورٹ پر اتریں تو وہ ایک انقلابی نہیں بلکہ مدبر سیاستدان بن چکی تھیں۔ عمران خان کو جولائی 2018ء کے بعد جس پاکستان کا اقتدار ملا اس میں ادارے باہم کشمکش کا شکار تھے۔ معاشی حالت تباہ ہو چکی تھی اور پاکستان کے اوپر ایسے لوگوں کا تسلط تھا جو ریاست اور اس کے اداروں کے لئے وہی لب و لہجہ اختیار کئے ہوئے ہیں جو کسی زمانے میں جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ یونینسٹ پارٹی‘ علامہ مشرقی‘ عبدالغفار خان اور بانی متحدہ کا رہا تھا۔ عمران خان کا ووٹر وہ نوجوان بنا جو ایشیا کے سرخ یا سبز ہونے کے نعروں سے لاتعلق ہے‘ جو مومن و کافر کی بحث کا حصہ نہیں اور جو کسی خاندان اور شخصیت سے وابستگی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ اس ووٹر نے سیاسی صف بندی کو بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کی تقسیم سے نکال کر ریاست کا حامی و مخالف بنا کر واضح کیا ہے۔ اس فکری تبدیلی کا مطالعہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہیں مگر ان جماعتوں کی قیادت کے مفادات اتنے بڑے ہیں کہ ان کی اوٹ سے دوسری طرف کا دلکش منظر دیکھنے کے لئے ان کے حامیوں کو کئی قیامتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ پنجاب بیت المال کے چیئرمین برادرم اعظم ملک نے ’’قلم دوست‘‘ کے اراکین کو مدعو کیا۔ ایثار رانا‘ ناصف اعوان‘ رابعہ رحمان‘ دردانہ نجم‘ ندیم نذر‘ شہزاد فراموش‘ رائو خالد‘ نعیم مسعود اور مبین سلطان اور راقم نے تبدیلی کی نظریاتی شکل کو اقتدار کے مسائل کے تناظر میں برادرم صمصام بخاری کے سامنے پیش کیا۔ مہنگائی‘ میڈیا میں بدزبانی‘ اچھی سیاسی روایات سے انحراف جیسے معاملات پر ہم سب کی سوچ ایک جیسی تھی‘ سب نے اصلاح احوال کی کوششوں کو ضروری قرار دیا۔ ایک تبدیلی تحریک انصاف کے اندر سے آنی چاہیے ایسے تمام لوگوں کو میڈیا پر آنے سے روکا جائے جو بدزبانی اور بدکلامی کو دلیل کا متبادل تصور کرتے ہیں۔ زراعت کے حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات صمصام بخاری سے کچھ باتیں ہوئیں کچھ آئندہ نشست پر موقوف کر دیں۔ صمصام بخاری سے ہمیں اچھی امیدیں ہیں۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبہ پنجاب میں کس مرحلے پر ہے اور اس کی رفتار سست کیوں ہے؟ پوچھا وزیر اعلیٰ بزدار کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک بار کسی شخص کو دیکھ لیں تو اس کی شخصیت کو سکین کر لیتے ہیں۔صوبائی وزیر اطلاعات اس بارے میں خاموش رہے۔ شاید انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ اس نشست میں کچھ باتیں بوجوہ نہیں ہو سکیں۔ کچھ ہوئیں مگر انہیں لکھا نہیں جا سکتا۔تاجروں کے رویے سے بہرحال حکومت شاقی نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ ہڑتال کچھ جزوی کامیاب اور کہیں مکمل ناکام ہوئی ہے۔ روٹی اور نان کی قیمتوں پر پروپیگنڈہ نان بائی ایسوسی ایشن کے اعلان کے بعد ختم ہونا چاہیے۔ مریم نواز کا بیان آیا ہے کہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کے بعد پہلی بار پورا پاکستان بند ہوا ہے۔ تاجروں کی ہڑتال بذات خود کچھ بھی نہیں‘ یہ ان ہتھیاروں میں سے ایک ہے جو اپوزیشن عمران خان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ عدلیہ کو متنازع بنا کر کرپشن کے ہر مقدمے کو ریاستی انتقام کے کھانے میں ڈالنے کی مہم شروع ہو چکی۔ منی لانڈرنگ اور ٹیکس محصولات کے معاملات پر تاجروں کے ذریعے حکومت کو پسپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بیانئے کو طاقتور بنانے کے جتن ہو رہے ہیں جسے پاکستان کے عوام بار بار دفنا چکے ہیں۔