اِسلام ہی وہ دین ہے ،جس نے ایک خاص نظام کے تحت اِس دنیا میں بسنے والے انسانوں سے لے کر حیوانات بلکہ جمادات تک کے حقوق اور اْس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فرائض کا تعین کردیا ہے اور اِنسانوں کے اَشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ ذمہ داری اِسی پر عائد فرمائی ہے ۔اور اِنہیں ہر سطح پر حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنے کی تعلیم دی گئی تاکہ معاشرہ عدمِ اِستحکام کا شکار نہ ہو اور نظامِ دنیا بہتر و اَحسن انداز میں چل سکے ۔ اِنسانوں کے علاوہ دیگر جاندار چونکہ شعور کی اْس سطح سے نہیں نوازے گئے جیسا کہ حضرتِ اِنسان نوازا گیا ہے ، اِس لئے جانداروں اور جمادات پر جو فرائض عائد ہیں ،اُنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک منظّم نظام کے تحت کردیا ،جس کی وجہ سے اُن پر عائد فرائض خودبخود ادا ہورہے ہوتے ہیں ،جن کا مشاہدہ ہر اِنسان اپنے روز مرہ کی زندگی کے معمولات میں روز وشب کرتا رہتا ہے ۔ یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے ،جس کا انکار ممکن نہیں۔ جب کوئی جانور انسان کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اُس کے سامنے بچھ جاتا ہے ،تو حقیقت میں وہ اپنے اُن فرائض کی ادائیگی کررہا ہوتا ہے ،جو قدرت نے اُس کی فطر ت میں ودیعت کئے ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ جمادات کا بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے اُن کے وجود میں انسانوں کے لئے جو فوائد پیدا کئے ہیں ،جن سے اِنسان استفادہ کررہا ہوتا ہے ،تو یہاں بھی دراصل جمادات کی طرف سے فرائض کی بجاآوری ہورہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا جب اِنسان اِن جمادات سے فائدہ حاصل کررہا ہوتا ہے ،تو اس پر اِن جمادات کے کچھ حقوق بھی پیدا ہوتے ہیں ،جنہیں پورا کرنا اِنسانوں پر فرض ہے ۔ جمادات کی فہرست میں دیکھا جائے ،تو اِن میں شاہراہیں ، راستے اور گزرگاہیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا اِسلام میں گزگاہوں کے حقوق پر بھی بہت زور دیا گیا ہے ۔ شاہراؤں اور گزرگاہوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق تو یہی ہے کہ اِنہیں صاف ستھرا رکھا جائے ، اْن میں کوئی تکلیف دہ چیز نہ چھوڑی جائے اور اگر کوئی پڑی ہوئی نظر آجائے تو اْسے فورًا دور کردیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کو حدیث مبارک میں صدقہ دینے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِمَاطَۃُالْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقۃٌ ترجمہ:’’راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی صدقہ ہے ‘‘۔ایک حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے فرمایا کہ راستوں پر بیٹھنے سے اِجتناب کرو ،تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اِس کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ہمیں محفل لگانی پڑتی ہے تو کچھ گفت و شنید کے لئے بیٹھ جاتے ہیں ،اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،تو پھر تم اِس کا حق ادا کردیا کرو ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے عرض کیا کہ راستے کا حق کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اِس کا حق یہ ہے کہ تم نظروں کو نیچی کرلیا کرو یعنی ہر آنے جانے والے کو نہ دیکھو ، تکلیف دہ چیزوں کو ہٹاؤ ، سلام کاجواب دو اور راستے میں بیٹھتے ہوئے لوگوں کو نیکی کا حکم اور برائی سے روکو۔ اِس حدیث مبارک کے تناظر میں اگر آج ہم اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں تو معاملہ بالکل برعکس نظر آئے گا۔ لو گ راہوں ، شاہراہوں اور دیگر عوامی جگہوں یعنی پارک وغیرہ میں بیٹھتے ہی اِس نیت سے ہیں کہ بلاتخصیص مرد و عورت ہر ایک کو خوب گہری نظر سے دیکھنا ہے ، راستے سے گزرتے ہوئے یا بیٹھے ہوئے پھلوں کے چھلکے ، دیگر اِستعمال شدہ چیزیں اور گندگی وہیں پھینکنی ہے اور جہاں تک سلام کے جواب دینے کا تعلق ہے تو جواب دینے کی نوبت تو اْس وقت آئے گی جب کوئی سلام کرے گا۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بحیثیتِ مجموعی قوم اِس اہم نبوی تعلیم کو فراموش کرچکی ہے اور راستوں کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ اَربابِ اِقتدار کی طرف سے اگر عوام کی سہولت کے لئے بہترین سہولتوں سے مزین سڑکیں، پارکس اور راہ گزر بنابھی دی جائیں تو اْن کے حقوق پورنے نہ کرنے کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں اْن کا حلیہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے ،تو پارکس کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اب تو یہ تماشا دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ بیچ روڈ پر یا پارکوں میں پھینک رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ شریعتِ مطہرہ کا منشاتو یہ ہے کہ راستوں کو صاف رکھا جائے نہ کہ صاف ستھرے راستوں میں گندگی پھینکی جائے ۔ اِس حوالے سے یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام مزاج یہ بن چکا ہے کہ جس کی جوذمہ داری ہے ،وہی پوری کرے ۔ لہٰذا اِس سوچ کی وجہ سے لوگ راستوں سے کسی بھی قسم کی گندگی یا تکلیف دہ شئے کے ہٹانے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس عمل کو ایمان کے اَجزاء میں سے ایک جز قرار دیا ہے اور اِس پر مغفرت کی نوید بھی سنائی ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث مبارک میں ہے کہ ایک شخص کو صرف اِ س لئے بخش دیا گیا کہ اْس نے راستے سے کانٹے کو ہٹایا تھا۔ شاہراہوں کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ مروّجہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کی جائے اور اْن کی خلاف ورز ی سے اِجتناب کیا جائے ۔ کیونکہ ٹریفک قوانین کی عدمِ تعمیل کے نتیجے میں حادثات رونما ہوتے ہیں ،جن سے نہ صرف املاک کا نقصان ہے بلکہ قیمتی جانیں بھی اِس حق سے عدمِ التفات کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں۔ آج شاہراہوں کے حقوق پامال کرنے کی ایک صورت بہت عام ہوچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ مختلف شادی بیاہ اور دیگر مذہبی پروگرامز کے لئے بیچ شاہراہ میں شامیانے اور قنات وغیرہ لگا کر اْنہیں بلاک کردیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے وہاں سے ہر گزرنے والا بالعموم اور بیمار و ناتواں افراد بالخصوص ذہنی کوفت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کئی مرتبہ مریض کو لے جاتی ہوئی ایمبولینس پھنس جاتی ہے جو بسااوقات مریض کے لئے جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔ مختلف علاقوں میں گلی کوچوں میں بیرئیر لگانا بھی اِسی کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ سب بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور شرعًا ناجائز ہے ۔ یہ حکم صرف شادی بیاہ اور اِس جیسی تقریبات کے لئے نہیں بلکہ اِس عدمِ جواز کا دائرہ کار مذہبی پروگرامز کے لئے بھی ہے ، جیسا کہ اِمام احمد رضا خاں فاضلِ بریلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے شارع عام پر میلاد شریف کے بارے میں سوال کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:’’دوسرا امر ناجائز اس مجلس میں یہ تھا کہ عام سڑک پر خصوصًا بازار میں جہاں آمدورفت کی زیادہ کثرت رہتی ہے ۔ فرش کرکے کتاب پڑھنا کہ یہ حقوقِ عامہ میں دست اندازی ہوئی۔ شریعت میں تو اِسی لحاظ سے راستہ میں نماز پڑھنا بھی مکروہ ہوئی نہ کہ بازار کی سڑک پر مجلس،(فتاویٰ رضویہ طبعِ جدید، جلد نمبر:23، صفحہ نمبر:724)‘‘۔لہٰذا جب عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے مقدّس عمل کے لئے شاہراہوں اور راستوں کو مسدود کرنے کی اِجازت نہیں دی گئی تو پھر دیگر معاملات کے لئے کس طرح اِجازت دی جاسکتی ہے ۔ اِس لئے بحیثیت مجموعی ہر ایک کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ عامۃ الناس کی فلاح و بہبود کے لئے تعمیر کی جانے والی سڑکوں ،شاہراہوں اور پارکوں کی ایسے ہی حفاظت کرے جس طرح وہ اپنی ذاتی ملکیت کی چیزوں کی کرتا ہے یہی باشعور قوم وملت کا شعار ہے ۔