’’ایک جواں سال لڑکی گھر سے بھائی کے لئے تحفہ لینے نکلتی ہے اور گھر میں کسی کو آگاہ بھی نہیں کرتی ،کاروں گاڑیوں کے ہوتے سوتے شدید حبس زدہ موسم میں پیدل چلتی ہوئی قریبی مارکیٹ تک جاتی ہے اور ٹیکسی پکڑتی ہے ،وہ ٹیکسی والے سے کسی دکان کا پوچھتی ہے ،ڈرائیور کہتا ہے ہاں جی مجھے دکان کا پتہ ہے اوروہ اسے وہاں لے جاتا ہے،وہ دکان سے تحفہ لیتی ہے واپسی پر پھر کسی ٹیکسی میں جابیٹھتی ہے تھوڑی دور جانے کے بعد بقول اس کے ٹیکسی والا کسی اور مسافر کو بھی ساتھ بٹھا لیتا ہے وہ ٹیکسی ڈرائیور سے احتجاج کرتی ہے جس پر وہ شخص اسے ڈراتادھمکاتا اور تشدد کرتا ہے وہ بیہوش ہوجاتی ہے جس کے بعد اسے ہوش آتا ہے تو وہ خود کو کچرے کے ڈھیر پر پاتی ہے وہ اٹھ کر سڑک تک آتی ہے اور ٹیکسی کرکے قریبی پارک چلی جاتی ہے ،وہاں جا کروہ لڑکی اپنے والد کے دوست کوفون کر کے صورتحال سے آگاہ کرتی ہے اورپھروہ اسے لے کر گھرآجاتا ہے ‘‘ پوچھا جا سکتاہے کہ جوان لڑکی نے تحفہ لینا ہی تھا تو گھر سے دبے پاؤں کیوں نکلی ؟ بھائی کو ساتھ لے جانے میں کیا ہرج تھا، زیادہ اچھا نہ تھا کہ وہ اپنی پسند کا تحفہ لیتا ؟ لیکن فرض کر لیتے ہیں کہ لڑکی اپنے بھائی کو سرپرائز دینا چاہتی تھی ۔آپ کا اگلا سوال ہو سکتا ہے کہ تشدد کے بعد لڑکی نے کسی سے مدد کیوں نہ لی؟ لڑکی کو فطری طور پرتو سب سے پہلے گھروالوں سے ہی رابطہ کرنا چاہئے تھا۔ والد کو فون کرنا چاہئے تھا،یہ بھی عجیب نہیں کہ وہ ٹیکسی لے کرگھر جانے کے بجائے پارک چلی جاتی ہے! آپ بھی کہیں گے کہ اس بیان میںجھول ہی جھول ہیں جب علم ہوتا ہے کہ سولہ جولائی کو چھبیس سال جو کی اچھی خاصی سمجھدار اور عاقل بالغ لڑکی کوئی عام لڑکی نہیں ،افغانستان کے سفیر صاحب کی صاحبزادی ہیں تو سوالوں کی کاٹ کچھ او رتیز ہوجاتی ہے ،کابل پر بھارت کے اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے، طالبان کی پیشقدمی کو سامنے رکھیں تو نئی دہلی کی بے چینی سمجھی جاسکتی ہے بھارت نے کابل میں اربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کر رکھی ہے اور کابل کو ایسے ہاتھوں میںلے رکھا ہے کہ اشرف غنی ہو یا کرزئی وہ وہی بولی بولتے ہیں جو انہیں نئی دہلی کہتا ہے۔ امریکہ کے رخت سفر باندھنے کے بعد تخت کابل کے لئے اب صرف اور صرف نئی دہلی ہی ان کی امیدوں کا مرکز ہے۔ بھارت اور افغانستان حلق پھاڑ پھاڑ کر طالبا ن کی گاڑیوں میں پاکستانی ڈیزل اور انکی کلاشن کوفوں میں پاکستانی میگزین کی دہائیاں دے رہے ہیں کبھی وہ شور مچاتے ہیں کہ طالبان گلگت بلتستان تک جا پہنچے ہیں اور کبھی سینہ کوبی کرتے ہیں کہ ان کے اجلاس کوئٹہ اور اسلام آباد میں ہورہے ہیں۔ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو پھنسائے رکھنے کا بھارتی اعتراف تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کی ’’ہمسائیگی‘‘سامنے آچکی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کاایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ٹوئٹ اپنی پالیسیوں کی’’ کامیابی‘‘ کا اظہار نہیں اپنے پڑوسی کو الجھائے رکھنے کا اعتراف ہے ۔افغانستان کی اس سیاسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اب پاکستان کے دارالحکومت میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ بلکہ مشکوک اغوا پرآجائیں ،اسلام آباد میں مالدیپ جیسے غریب ملک کے ہائی کمیشن کے پاس بھی چار پانچ کاریں تو ہوں گی ہی،یقینی طور پر افغانستان کے سفارتخانے میںبھی ہوں گی ،نہ بھی ہوں تو سفیر صاحب کی صاحبزادی کے لئے تو ہوگی ہی ،ان گاڑیوں کے ہوتے ہوئے افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل صاحبہ شدید حبس زدہ گرم موسم میں گھر سے باہر نکلتی ہیں اور سفارتخانے کی سکیورٹی کوئی سوال نہیں کرتی ؟ موجودہ حالات میں پاکستان میں افغان سفیر اور ان کے اہل خانہ کی سکیورٹی یقینی طورپر کابل کے لئے بھی بہت اہم ہے ۔۔۔چلیں جانے دیجئے مان لیتے ہیں کہ لڑکی کو اسلام آباد میں کوئی ڈر خوف نہیں تھا اسی لئے وہ گھر سے پیدل چلتی ہوئی قریبی مارکیٹ تک گئیں اور ٹیکسی پر سوار ہوئیں لیکن اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ واپسی پرمبینہ افسوس ناک واقعے کے بعد جب وہ ہوش میں آئیں تو انہوں نے گھر جانے کے بجائے ایف نائن پارک جانے کو کیوں ترجیح دی ؟ انہوں نے والدہ ،والد کو فون کرنے کے بجائے کسی اور کو فون کیوں کیا؟ یہی سوال لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جب س سلسلہ صاحبہ سے سوال جواب کئے اور ان سے پوچھا کہ آپ تو راولپنڈی میں بھی پائی گئی ہیں،یہ دیکھئے سی سی ٹی وی کیمروں کی تصاویرتو مدعیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔افغان سفیر کی صاحبزادی یہ بھی نہیں بتا سکیں کہ وہ اسلام آباد کے تفریحی مقام دامن کوہ کیا کرنے گئی تھیں، جہاں ان کے بیان کے برعکس سیل فون انکے پاس تھا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق سی سی ٹی وی کیمروں میں سی وہ موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہیں،اس پر بھی وہ مطمئن نہ کرسکیں۔ اس بارے میں وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ مبینہ متاثرہ لڑکی سے جب موبائل فون لیا گیا تو اس نے اس میں موجود ڈیٹا مٹا کر دیا بہت معنی خیز ہے ۔ یہ سارے سوال معاملے کو الجھا رہے ہیں بلکہ کوئی اور ہی رنگ دے رہے ہیں تفتیش ہورہی ہے تحقیقات ہورہی ہیں لیکن نتائج کا انتظار کئے بنا ہی کابل حکومت اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کر دیتی ہے کہ ہمارا عملہ پاکستان میں محفوظ نہیں،اس سوال سے قطع نظر کہ افغانستان میں کون کتنا محفوظ ہے، کابل نے یہ فیصلہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی عجلت سے کام لیا۔ اس سے زیادہ عجلت سے بھارتی اور افغان میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کرکے کیا بھارتی میڈیا نے تو افغان سفیر کی صاحبزادی کے ساتھ’’ زیادتی‘‘ تک کو رپورٹ کر دیااور مدعا طالبان پر ڈال دیا،صاف ظاہر ہے ان کامدعا اور مقصد یہی تھا پاکستان کو ایک غیر محفوظ اور غیر مستحکم ریاست قرار دیا جائے،اس سے بھارت کیا فوائد لینا چاہتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہے گی کہ افغان سفیر کی صاحبزادی کے ساتھ اصل میں ماجرہ کیا پیش آیا بسذرا پردہ اٹھنے کا انتظار ہے۔