نوجوان ارب پتی پاکستانی امریکن راغب حسین سے میری ملاقات مکاتب خانہ شاہی قلعہ لاہور میں ہوئی۔ ان کی دلچسپ اور حیران کن داستان حیات کا پہلا باب ان کی زبانی سنیے۔ ’’میں کراچی کے ایک نیم متوسط بلکہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا۔ میرا بچپن کھلونوں سے ناآشنا تھا۔ گھر میں عیش و عشرت تو دور کی بات ہم زندگی کی تمام راحتوں سے بھی آگاہ نہ تھے۔ والدین اور بارہ بہن بھائیوں کا یہ کنبہ صرف تین چھوٹے چھوٹے کمروں میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ تنگدستی اور عسرت کا سماں تھا مگر ہم کسی طرح کے احساس محرومی کا شکار نہ تھے۔ فیڈرل بی ایریا کے قریب میں جس سرکاری سکول میں زیر تعلیم تھا وہ پیلا سکول کے نام سے معروف تھا۔ ہمارے سکول کے کمروں میں ڈیسکوں کا کوئی تصور نہ تھا اور سکول کے اپنے پھٹے پرانے ٹاٹ بھی نہ ہونے کے برابرتھے۔ میں گھر سے دری نما کوئی کپڑا لے کر جاتا اور فرش پر اسے بچھا کر اساتذہ کی جھڑکیوں سے لذت یاب ہوتا۔ انہی جھڑکیوں کے سائے میں پل کر ہم جواں ہوئے۔ گھر اور گھر سے باہر گلی محلے میں ہر وقت ایک ہنگامے کی سی کیفیت ہوتی۔ وہی ہنگامہ جس کے بارے میں اسداللہ غالب نے کہا تھا کہ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق تاہم اس ’’رونق‘‘ میں اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنا ممکن نہ تھا۔ میں نے اسی کا حل یہ نکالا کہ 1980ء کی دہائی میں جب پی ٹی وی ڈراموں پر لوگ جان چھڑکتے تھے اور 8 بجے ڈرامہ نشر ہوتا تو گھر کے اندر اور باہر ہو کا عالم ہوتا۔ یہی میری پڑھائی اور امتحانی تیاری کا پرائم ٹائم ہوتا۔ میں اوپر چھت پر آ کر ایک مدہم سے ٹمٹماتے بلب کی روشنی میں دنیا و مافیھا سے بے نیاز ہو جاتا اور یوں میں اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرگیا۔‘‘ چند سالوں میں راغب حسین کے امریکہ میں ارب پتی اور وہ بھی ڈالروں میں ارب پتی بن جانے کے کلائمیکس کی طرف آنے کی مجھے جلدی تھی مگر راغب حسین نے کہا کہ میری امریکہ میں کوئی بڑی لاٹری نہیں نکلی تھی۔ میری کامیابی کی کہانی میرے مولا کی مہربانی، میرے والدین کی دعائوں اور میری مسلسل شدید ترین محنت کا ثمر ہے۔ اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ کہانی کی کوئی ضروری کڑی نہ رہ جائے۔ میں نے کہا جی، راغب صاحب آپ جاری رکھیے۔ ’’جیساکہ میں بتا چکا ہوں مالی حالات بہت پریشان کن تھے تاہم ہمارے والدین اپنی جان کی بازی لگا کر بھی ہمیں تعلیم دلانے پر کمربستہ تھے۔ وہ ہمیں زیور تعلیم سے محروم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کالج پہنچا تو کئی مشکلات میری راہ تک رہی تھیں۔ میں نے پری انجینئرنگ میں ایف ایس سی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سکول میں ہم نے فزکس کیمسٹری وغیرہ اردو میں پڑھی تھی مگر کالج میں انگلش میڈیم تھا۔ پہلے دو تین ماہ تو میری سمجھ میں ہی نہ آیا کہ پروفیسرز کیا پڑھا رہے ہیں۔ تاہم اردو میڈیم کا یہ فائدہ ضرور تھا کہ ان علوم کے بارے میں ہماری بنیادی معلومات بڑی واضح تھیں۔ میں نے ڈکشنری کی مدد سے پڑھائی شروع کردی۔ کسی ٹیوشن یا اکیڈمی کے بارے میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ عین انہی دنوں ایک اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ میری والدہ شدید علیل بلکہ معذور ہو گئیں اور کئی ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ مجھے ان کی تیمارداری کے لیے ہر رات ہسپتال میں گزارنا پڑی۔ والدہ کی خدمت سے مجھے دلی سکون اور قلبی راحت ملی مگر میں پریشان تھا کہ امتحان کا کیا ہوگا۔ ساتھ ہی میرے بڑے بھائی نے مجھے یہ نصیحت بھی کہ زندگی کا یہ اہم موڑ تمہارے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ ان دنوں میں نے ایک دلچسپ بات دریافت کی کہ پرسکون اور آئیڈیل ماحول کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرو۔ لہٰذا میں اپنے گردوپیش سے بے نیاز ہو کر بس سٹاپ پر، کالج کے درختوں تلے اور رات کو ہسپتال میں اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھتا۔ میں اسے اپنی بیمار والدہ کی دعائوں کا نتیجہ کہوں گا کہ اتنے کٹھن حالات میں امتحان دے کر بھی میری ایف ایس سی میں کراچی بورڈ میں 15 ویں پوزیشن آئی۔‘‘ راغب حسین ’’آگ کے اس دریا‘‘ کو عبور کرنے اور طرح طرح کی مشکلات کو مات دینے میں کامیاب ہو کر این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے اسی غربت کے عالم میں اسی شان سے پڑھائی جاری رکھی کہ وہ اپنے خوشحال کلاس فیلوز سے ان کی کتابیں عاریتاً لیتے اور ان کی فوٹو کاپی تیار کروالیتے۔ این ای ڈی یونیورسٹی سے آپ امریکہ کیسے پہنچے؟ راغب حسین نے بھانپ لیا کہ میرا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے۔ لہٰذا بات کو مختصر کرتے ہوئے وہ امریکہ آئے اور پھر چند سالوں میں ارب پتی بن جانے کی طرف آ گئے۔ ’’اگر آپ کا اپنے اللہ پر ایمان اور اپنے آپ پر بھروسا ہو تو قدرت خود لالے کی حنا بندی کردیتی ہے۔ مجھے سیلیکون ویلی کی ایک کمپیوٹر فرم کے پاکستان آفس میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے شب و روز محنت کی اور کمپنی نے خوش ہو کر 1995ء میں مجھے امریکہ بلا لیا۔ جب میں سیلیکون ویلی امریکہ میں آیا تو میری جیب میں صرف 250 ڈالر تھے۔ یہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ؎ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی تھا میں نے تنگئی داماں کو فراخیٔ داماں میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ مگر یہ ایک اور آگ کا دریا تھا۔ میں سین جوزے سٹیٹ یونیورسٹی میں داخل ہو گیا۔ دن کو جاب کرتا اور شام کو یونیورسٹی میں پڑھتا اور بمشکل پانچ چھ گھنٹے سو پاتا۔ محنت ہی محنت۔ یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد میں نے کچھ مدت ملازمت کی مگر پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی غربت کا دائرہ توڑنے والے اور اپنے جیسے غریبوں کی قسمت بدلنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں کہ اپنا بزنس ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا راغب صاحب اچھی بھلی ملازمت چھوڑ کر آپ کو اپنا بزنس شروع کرتے ہوئے ڈر تو لگا ہو گا؟ راغب صاحب کہنے لگے کہ میرا اللہ پر ایمان پختہ ہے۔ اسی کا فرمان ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ تگ و دو کرتا ہے۔ ارشاد مصطفی ﷺ ہے کہ دس میں سے نو حصے رزق تجارت میں ہے۔ ہماری پیچیدہ ترین سافٹ ویئر تیار کرنے کی کمپنی ہے جس میں ہمارے ساتھ انڈیا سے تعلق رکھنے والے سید علی ہیں۔ یہ کمپنی سالانہ 6 بلین ڈالر کا کام کرتی ہے۔ ہماری انٹرنیشنل ٹیم ہے جو ہفتے کے 5 دن نہیں ساتوں دن کام کرتی ہے۔ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ ون مین شو یا محض آئیڈیا کی کچھ حقیقت نہیں، اس سارے خاکے میں رنگ ٹیم ورک سے ہی بھرا جاتا ہے۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں میں نے کہا راغب صاحب آپ گفتگو میں علامہ اقبالؒ کے اشعار اور ان کے مصرعے حسب موقع سناتے ہیں۔ کہنے لگے اقبال ہمارا عظیم شاعر اور میرا تو مرشد ہے۔ راغب صاحب خود بھی شاعر ہیں مگر ابھی اپنے کلام کواپنے سینے میں تھام کر بیٹھے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بڑی خوشگوار حیرت کا باعث ہوئی کہ راغب صاحب کو عین غربت کے عالم میں این ای ڈی یونیورسٹی کے زمانے سے ہی غریبوں اور کم وسیلہ لوگوں کی مدد کا چسکا پڑ گیا اور اب وہ امریکہ میں رہتے ہوئے اور اربوں ڈالر کماتے ہوئے اپنے پیارے پاکستان کو نہیں بھولے اور اپنی ایک تنظیم ’’کوشش‘‘ اور UWR وغیرہ کے ذریعے اہل وطن کی ہی نہیں بلکہ کئی افریقی ممالک میں بھی غریبوں اور یتیموں کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ راغب حسین سے ملاقات کا اہتمام ایک اور ’’مانوس اجنبی‘‘ نے کیا تھا۔ یہ ’’مانوس اجنبی‘‘ جس کا نام بیگم صباحت رفیق ہے۔ وہ بھی راغب حسین کی طرح ایک خوشحال پاکستانی امریکن ہے۔ صرف دو برس قبل صباحت رفیق شہر میں وارد ہوئیں اور آج وہ لاہور کی تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور مجلسی زندگی کا نمایاں ترین حصہ بن چکی ہیں۔ وہ بھی وطن کو بہت کچھ لوٹانے کا تہہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ’’یو ڈبلیو آر‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ اس ادارے کے تحت انہوں نے لاہور کے کئی سکولوں میں کیلیفورنیا کے معیار پر بچوں کو انگلش، ریاضیات اور سائنس پڑھانے کا ایک سیٹ اپ قائم کر رکھا ہے۔ جب کبھی صباحت رفیق سے ملاقات ہوتی ہے ان کی شخصیت کا کوئی اور پہلو سامنے آجاتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں معلوم ہوا ہے کہ وہ مولانا رومی اور اقبال کی شیدائی ہیں۔ ؎ جب بھی تجھے دیکھا ہے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا مکاتب خانہ کی تاریخ اور اس میں منعقد ہونے والی تقریب کا حال پھر کبھی۔ میں نے راغب حسین سے آخر میں پوچھا کہ ملکی حالات سے مایوس نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے وہ کیا کہیں گے۔ راغب حسین نے کہا کہ میرا مشورہ بڑا سادہ اور مختصر ہے۔ نوجوان حالات پر کڑھنے کی بجائے دل سے محنت کریں اور اپنے خدا پر ایمان کامل رکھیں۔
راغب حسین: مجھے تو حیران کر گیا وہ
جمعرات 10 مئی 2018ء
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں جمعرات 10 مئی 2018ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں