بابری مسجد کی کھدائی کی گئی تاکہ اس میں سے مندر کے آثار نکلیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ ان شواہد سے مطمئن نہیں ہے جو مندر کے حق میں پیش کیے جارہے ہیں ورنہ کب کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ جہاں تک عقیدے کی بنیاد پر عدلیہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے لیے کوئی چمتکار ہی درکار ہے۔ مثل مشہور ہے ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ لیکن اس بار رام مندر تحریک کے اندر سے مرا ہوا چوہا بھی نہیں نکلا جو طاعون کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ اسی لیے وی ایچ پی نے اپنے چار ماہ پرانے الٹی میٹم سے یو ٹرن لیتے ہوئے چارماہ کے لیے احتجاج ملتوی کردیا ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ پہلے چار مہینوں میں فرقہ واریت کے شعلوں کو خوب دہکایا جائے گا اور اگلے چار مہینوں میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی روٹیاں سینکی جائیں۔ لیکن وشوہندو پریشد نے 5 فروری 2019 ء کو یہ اعلان کرکے کہ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی مہم عام انتخابات کے اختتام تک روک دی گئی ہے سیاسی مبصرین کو چونکا دیا۔ اس کی اس حرکت پر علامہ اقبال کا یہ مصرع (ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے: یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے ’’اصنامِ مندر ‘‘پر یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت پرنام آیا اس انقلابی فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وشو ہندو پریشد رام مندر کو انتخابی مدعا بننے دینا نہیں چاہتا۔کیا وی ایچ پی کے عالمی صدر آلوک کمار کو چار ماہ قبل یہ اندازہ نہیں تھا کہ’ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر تک ہندو چین سے نہیں بیٹھیںگے اور نہ ہی دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیںگے‘ کا مطلب ہی اسے انتخابی مدعا بنانا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انتخاب کے وقت یہ تحریک اور رام مندر تعمیر کی مطالبہ سیاست میں الجھ کر محض انتخابی مدعا بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے اگلے چار مہینوں تک اس کو سیاست سے بچانا چاہیے۔ وی ایچ پی کے بین الاقوامی جنرل سکریٹری سریندر جین نے بھی کہا کہ آئندہ انتخابات کے مدنظر چار مہینے تک رام مندر تحریک پر روک لگائی گئی ہے تا کہ کوئی یہ الزام نہ لگا پائے کہ ان کی تنظیم کسی خاص پارٹی کو فائدہ پہنچانے کی سعی کرتی ہے: کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا آگے بڑھنے سے قبل رام مندر کے نام پر ہونے والی سفاکانہ سیاست پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ رام مندر کا سیاسی استعمال بی جے پی، شیوسینا اور کانگریس سب نے کیا ہے۔ راجیو گاندھی ایک ناتجربہ کار سیاستداں تھے اور ان کے مشیر بھی ارون نہرو اور ارون سنگھ جیسے ناپختہ لوگ تھے جو بلاوجہ رام مندر کی تحریک سے خوفزدہ ہوگئے۔ ان لوگوں نے گھبرا کر بابری مسجد کا تالا کھلوا دیا۔ اس کامیابی سے بی جے پی کے منہ کو خون لگ گیا اور اس نے رام مندر کی تحریک تیز تر کردی تو راجیو گاندھی نے رام مندر کے شیلانیاس کی اجازت دے دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 204نشستیں جیت کر اپنے نانا کا ریکارڈ توڑنے والے راجیوگاندھی کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ کانگریس پارٹی نے پہلی بار رام مندر کی سیاست کی اور اقتدار سے محروم ہوگئی لیکن بی جے پی 2سے 98پر پہنچ گئی۔ بوفورس کے مسئلہ پر کانگریس سے بغاوت کرنے والے وی پی سنگھ کانگریس کو شکست دینے کے بعد حکومت سازی کے لیے بی جے پی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔ 1990-91ء کے دوران پہلی بار بی جے پی یو پی سمیت مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہماچل پردیش کے اندر اقتدار میں آئی۔ کانگریس پارٹی کا شمالی ہندوستان میں صفایا اسی رام مندر کے چکر میں ہوا۔ پرنب مکرجی نے اپنی سوانح حیات میں راجیو گاندھی کی اس غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1991ء کے عام انتخابات سے آٹھ ماہ قبل ایڈوانی جی نے گجرات سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا تو وشوہندو پریشد کے سادھو سنت اس کے آگے جھاڑو لگا رہے تھے۔ تین ماہ تک ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ لگانے کے بعد اکتوبر میں اسے لالو نے لگام لگائی اور ایڈوانی کوگرفتار کر لیا۔ ایک ہفتے بعد ایودھیا میں ملائم سنگھ یادو کے حکم پر فائرنگ میں کچھ کارسیوک ہلاک ہوئے۔ 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہیدکر دی گئی۔ کانگریس کی نرسیما رائو حکومت نے اول تو بی جے پی کو ڈھیل دی پھر اس کا سیاسی فائدہ اٹھا تے ہوئے بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کوبرخاست کر دیا۔ پرنب مکرجی کو نرسیما رائو نے 1991ء میں پلاننگ کمیشن کا سربراہ بنایا تھا اور آگے چل کر وزیر خارجہ کا قلمدان بھی سونپااس لیے وہ ان حالات کے قریبی مشاہد تھے۔ پرنب دا نے اپنی سوانح عمری میں بابری مسجد کو بچانے میں ناکامی پر نرسیمارائو کی تنقید کی اور اسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا۔ کانگریس اس کے ذریعہ بی جے پی کو کمزور کرنے کی کوشش تو کی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ 1996ء کے قومی انتخاب میں ملک کے عوام نے راجیو گاندھی کی طرح بابری مسجد کی شہادت میں شریک کار نرسمہا راو کی بھی چھٹی کردی۔ بی جے پی بابری مسجد کے انہدام کو بھنانے کی لاکھ کوشش کے باوجود 1993ء کے صوبائی انتخابات میں راجستھان کے علاوہ تین صوبوں میں ہار گئی۔ اس وقت بی جے پی کی سمجھ میں آگیا کہرام مندر میں اب دم خم نہیں ہے۔ 1996ء میں بی جے پی 161نشستوں پر کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تورام مندر کے رتھ یاتری کو ہٹا کر اٹل جی کو وزیراعظم بنایا گیا مگر وہ حربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ بابری مسجد کے کلنک نے کسی جماعت کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیااور 31دن بعد اٹل جی بھاگ کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح بی جے پی کے لیے رام مندر کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ بی جے پی نے 1989ء انتخاب سے رام مندر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ جنتا دل کی حکومت جب آپسی رنجش کے سبب منہ کے بل گری تو پھر سے بی جے پی281 سیٹ جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور اسے حلیف بھی میسر آگئے۔ مارگ درشک منڈل میں بے یارو مددگار ایڈوانی جی آج تک اس دن کو کوس رہے ہیں جب انہوں نے رام مندر کا مسئلہ اٹھانے کی بھول کی تھی۔ اس صورتحال میں علامہ اقبال کا شعر جوانہوں نے مغرب کے لیے کہا تھا ان فسطائیوں پر بھی صادق آتا ہے: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا (بشکریہ: رونامہ امن‘ بھارت )