گذشتہ پینتالیس سال سے ایران اور افغانستان کا خطہ انقلابات کی زد میں ہے۔ ان انقلابات کے پسِ پردہ محرکات دراصل امریکہ اور سوویت یونین کی علاقائی کشمکش اور ’’سوشلزم‘‘ اور ’’کیپٹلزم‘‘ کی نظریاتی جنگ کا تار پود تھے۔ افغانستان میں 1973ء میں جب سردار دائود نے ظاہر شاہر کا تختہ اُلٹ کر اس ملک کو ’’بادشاہت‘‘ سے ’’جمہوریہ‘‘ میں بدلا تو اس وقت ایران پر شاہ رضا شاہ پہلوی کا اقتدار بہت مضبوط تھا۔ اس قدر مضبوط کہ بلوچ سردار آج بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں آرمی ایکشن دراصل شاہِ ایران کی ایماء پر کیا تھا، تاکہ ایرانی علاقے سیستان بلوچستان میں بلوچوں کو مزید دبایا جا سکے۔ سردار دائود کے جمہوری افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب کے پروانے، پرچم اور خلق پارٹیوں کی صورت سوویت یونین کی آشیر باد سے انقلاب کی تیاریوں میں تھے اور دوسری جانب ایران کی کیمونسٹ ’’تودہ‘‘ پارٹی کی اہم قیادت علی خاوری، پرویز حکمت جو، اور آصف رزم زادہ کو پھانسی کی سزائیں سنائی جا چکی تھیں۔ ادھر نور محمد ترکئی کی قیادت میں کیمونسٹ انقلاب کے خواب دیکھے جا رہے تھے اور دوسری جانب ایران میں تودہ پارٹی مازندران کے پہاڑی علاقے میں زیرِزمین ہو کر خفیہ کارروائیاں کر رہی تھی۔ اپریل 1978ء میں نور محمد ترکئی کی سربراہی افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب آ گیا اور ادھر اسی ماہ میں شاہِ ایران کے خلاف تہران یونیورسٹی سے جلوسوں اور ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ جس کے نتیجے میں گیارہ فروری 1979ء کو آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران میں ایک بھر پور اسلامی انقلاب برپا ہو گیا۔ اس انقلاب کی مدد کیمونسٹ تودہ پارٹی بھی کر رہی تھی۔ صرف چند ماہ کے وقفے کے بعد افغانستان میں 8 اکتوبر 1979ء کو نور محمد ترکئی کو قتل کر دیا گیا۔ افغان کیمونسٹ پارٹیوں کے اختلافات اس قدر شدید تھے کہ دسمبر 1979ء کو روس کو خود اپنی افواج افغانستان میں اُتارنا پڑیں۔ اس کے بعد افغانستان عالمی طاقتوں کی لڑائی کا ’’اَکھاڑہ‘‘ بن گیا جبکہ دوسری جانب ایران میں اسلامی انقلاب کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں۔ افغانستان میں آٹھ سالہ طویل جنگ فروری 1988ء میں ختم ہوئی ، مگر آپس کی سات سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ اپریل 1996ء میں ہوا جب ملا محمد عمرؒ کی قیادت میں افغانستان کی سرزمین نے پہلی دفعہ ایک مکمل اسلامی انقلاب کا روپ دیکھا۔ صرف پانچ فیصد علاقے کو چھوڑ کر پورے افغانستان پر طالبان کا اسلامی شریعت کا پھریرا اکتوبر 2001ء تک پانچ سال لہراتا رہا۔ اس اسلامی افغانستان کو امریکہ سمیت اڑتالیس ممالک کی افواج نے ’’درندوں‘‘ کی طرح حملہ آور ہو کر جمہوریت میں بدل دیا۔ بیس سال دُنیا بھر کے وسائل اس چار کروڑ کی مختصر سی آبادی پر خرچ کئے گئے لیکن نہ افغان عوام کے دلوں میں جگہ بنائی جا سکی اور نہ ہی طالبان کی قوت و طاقت کو ختم کیا جا سکا، اور بالآخر 15 اگست 2021ء کو یہ عالمی عسکری بدمعاشی اپنے بدترین انجام کو جا پہنچی۔ افغانستان میں یہ چالیس سال اُتار چڑھائو کے سال ہیں، جبکہ ایران میں یہ چالیس سال اسلامی انقلاب کے استحکام کے سال ہیں۔ دونوں ’’انقلابات‘‘ میں کیا جوہری فرق ہے کہ طالبان کا اسلامی انقلاب صرف چند سال ہی اپنی اصلاحات نافذ کرتا ہے تو خوفزدہ یورپ و امریکہ اس کے خاتمے پر پوری عسکری قوت جھونک دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب ایران کے انقلاب کا مقابلہ صرف اور صرف معاشی و معاشرتی بائیکاٹ سے کیا جاتا ہے۔ یہ بائیکاٹ بھی اس قدر غیر منظم ہوتا ہے کہ خود امریکہ کے زیرِاثر یورپ کے نیٹو اتحادی ایران سے تجارتی اور معاشرتی رشتے بھی استوار رکھتے ہیں۔ بھارت جو امریکہ کے زیرِاثر ایک مدت سے ہے، لیکن پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل مسلسل خریدتا رہتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایران پر افغانستان کی طرح حملہ نہیں کیا گیا، ویسے ہی تمام عالمی طاقتیں منظم ہو کر اس پر نہیں ٹوٹ پڑیں۔ اسے شیطانی مرکز (Axis of Evil) کہا گیا لیکن اس پر قبضہ کر کے وہاں افغانستان کی طرح اپنی مرضی کا آئین بنانے، اپنی مرضی کے الیکشن کروانے اور اپنی مرضی کی فوج اور سکیورٹی ادارے ترتیب دینے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ دونوں اسلامی انقلابات میں بہت بڑا فرق ہے۔ اسی لئے دونوں کے بارے میں عالمِ کُفر کے ردِّعمل میں بھی واضح فرق ہے۔ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جس اسلامی انقلاب کی داغ بیل ایران میں ڈالی گئی اس کی نظریاتی اساس ڈاکٹر علی شریعتی کی کتب، اس کی تقریریں اور علامہ اقبالؒ کی انقلابی شاعری تھی۔ شریعتی ایران میں قائم اس صفوی معاشرے کا بہت بڑا نقاد تھا۔ اس کے نزدیک صفوی تشیع نے ’’شیعت‘‘ کے انقلابی تصور کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ اصل تشیع تو باطل اور طاغوت کے سامنے ’’قیام‘‘ یعنی سینہ سپر ہونے کا نام ہے جبکہ صفوی تشیع نے اسے ’’گریہ و ماتم‘‘ تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اقبالؒ کی شاعری کے بارے میں ایرانی انقلاب کے داعی یہ کہا کرتے تھے کہ اس نے ہمارا محاورہ تک بدل کر رکھ دیا۔ ایران کا معاشرہ شیخ سعدیؒ کے اس مصرعے کے مصداق ’’ زمانہ با تو نہ ساز د تو با زمانہ بساز‘‘ (زمانہ اگر تم سے بہتر سلوک نہیں کر رہا تو تُو زمانے سے بنا کر رکھ)۔ اقبالؒ نے اس محاورے کو ’’حدیثِ بے خبراں‘‘ یعنی سوئی ہوئی اقوام کا قول کہتے ہوئے لکھا ’’زمانہ با تو نہ ساز د تو با زمانہ ستیز‘‘ (زمانہ اگر تمہارے ساتھ بنا کر نہیں رکھ رہا تو تُو اس سے جنگ کر)۔ اقبالؒ کے اس نئے محاورے نے پوری ایرانی قوم میں نئی روح پھونک دی۔ گلیوں، بازاروں میں شریعتی کی تقریریں اور اقبالؒ کی نظمیں گونجنے لگیں۔ اس انقلابی کیفیت میں جلا وطن آیت اللہ خمینی کی تقریروں والی آڈیو کیسٹوں نے ماحول کو دوآتشہ کر دیا۔ اور صرف ایک سال سے کم مدت میں آیت اللہ خمینی کا تہران ایئرپورٹ پر فقید المثال استقبال ہو رہا تھا۔انقلاب کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ایرانی سوسائٹی مکمل طور پر بدلی ہوئی نظر آنے لگی تھی۔ عورتوں کو مکمل حجاب کا پابند بنایا گیا تھا۔ پاسداران کی گاڑیاں ذرا سی بھی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو اُٹھا کر لے جاتیں اور گھر والوں کے سامنے آئندہ احتیاط کے محضر نامے پر دستخط کروا کر چھوڑتیں۔ نماز باجماعت کا ہر جگہ مکمل اہتمام کیا جاتا تھا۔ لباس میں سے ٹائی اُتار پھینکی گئی اور ہر چہرے پر چھوٹی سی داڑھی سجی ہوئی نظر آنے لگی۔ شرعی قوانین کے نفاذ کیلئے دادہ گاہیں (عدالتیں) قائم کر دی گئیں۔ ان بنیادی چند جوہری تبدیلیوں کے علاوہ ایران کے روایتی نظام معاشرت و تہذیب اور اقتصاد و کاروبار کو بالکل نہیں چھیڑا گیا۔ جس سودی نظام اور عالمی مالیاتی سسٹم کے تحت ایران 1945ء سے ’’برٹن دوڑ معاہدے‘‘ کی پاسداری کر رہا تھا، اسی کو ویسے ہی قائم رکھا گیا۔ صرف تھوڑا سا فرق یہ کیا گیا کہ اسلامی بینکنگ کے سابقے لاحقے لگا کر دیگر اسلامی ممالک کے اسلامی بینکاری کی طرح خنزیر کوبکرے کی کھال پہنا دی گئی۔ وہ جنگ جس کا اعلان اللہ اور اسکے رسولﷺ نے ’’سود‘‘ کے خلاف کیا ہے، اس کے خاتمے کیلئے کوئی کوشش نہ کی گئی۔ تمام مخلوط دفاتر، کالج، یونیورسٹیاں اور ہسپتال ویسے ہی مخلوط رہے، البتہ وہاں خواتین کیلئے حجاب لازمی قرار دے دیا گیا۔ ایرانی تہذیب کی چند اہم علامتوں میں مجسمہ سازی، صورت گری اور کیلی گرافی شامل ہیں۔ ان سب فنون کو بالکل نہیں چھیڑا گیا۔ آج بھی ایران کے تقریباً ہر چوراہے پر کسی شاعر، انقلابی یا قدیم بادشاہ کا قد آور مجسمہ نصب نظر آتا ہے۔ اسی طرح ایرانی شروع دن سے سیدنا علیؓ اور دیگر اہلِ بیت کی خیالی تصاویر کے پوسٹر آویزاں کرتے تھے، انہیں بھی بالکل نہیں چھیڑا گیا۔بلکہ مشہد میں امام رضاؓ کے مزار سے ملحقہ احاطے میں دیوار پر واقعہ کربلا کو تصویروں میں پینٹ کیا گیا ہے، اسے بھی ویسے ہی رہنے دیا گیا۔ (جاری)