گزشتہ دنوں انگلینڈ کے شاہی خاندان کی ہر دلعزیز شہزادی کیٹ مڈلٹن پاکستان میں تھیں اور پاکستان اس حوالے سے دْنیا بھر کی خبروں میں۔ شہزادی کیٹ اور شہزادہ ولیم کا یہ دورہ اس امر کی دلیل قرار دیا جا رہا تھا کہ پاکستان اب ایک محفوظ مْلک ہے اور سیّاحت کے لیے بہت موزوں۔ دہشت گردی بڑی حد تک ختم کی جا چکی ہے۔ عالمی سطح پر وطنِ عزیز کا یہ پْر امن تاثر اطمینان و عزت کا باعث بنا، ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان خیر کی خبروں کا حصّہ بنا۔ بظاہر یہ خیر سگالی دورہ تھا لیکن اس کی افادیت مستقبل قریب و بعید میں کئی پہلوو ں سے سامنے آسکتی ہے۔ بالخصوص عالمی سرمایہ کار اْن ممالک کی طرف ضرور متوجہ ہوتے ہیں جہاں اہم شخصیات کی آمد و رفت شروع ہوجائے ۔ یوں بھی وزیرِ اعظم عمران خان کے اقوامِ متحدہ میں خطاب کے بعد یہ مثبت پہلو ضرور سامنے آیا ہے کہ اب پاکستان کی باگ ڈور سنجیدہ، پْرخلوص اور دلیر ہاتھوں میں ہے۔ اگرچہ کشمیر کے ایشو پر بوجوہ شاید فوری نتائج سامنے نہ آ سکیں گے لیکن ’’اسلاموفوبیا‘‘ کے حوالے سے عمران خان کی بے باک گفتگو نے عالمی طاقتوں کو چونکایا ضرور ہے۔نائن الیون کے بعد سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ امریکہ،آسٹریلیا، فرانس بلکہ تمام یورپ میں اسلام کو ایک ایسا مذہب قرار دیا جا رہاہے جو دہشت گردی کو تقویت دیتا ہے، انتہائی افسوسناک اور حوصلہ شکن ہے۔اور اس کے جواب میں مسلمان حکمرانوں اور دیگر خواص کی مجرمانہ خاموشی معاملہ کو گہری سنگینی کی طرف لے کر جا رہی ہے، اس تناظر میں عمران خان کا مستحکم لہجہ اہمیت کا حامل ہے۔مذہب اسلام کے حوالے سے یہ کشمکش ختم تو نہیں ہو جائے گی مگر اس پر ذمہ دارانہ مکالمہ کرتے رہنے سے اس میں کمی ضرور آئے گی۔سارا قصور غیر اسلامی قوّتوں کا نہیں ہے، ہم مسلمانوں کو بھی اپنا کردار سنجیدگی اور دلجمعی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص تارکینِ وطن مسلمان جب نئے معاشرہ میں آتے ہیں تو امیگریشن و فکرِ معاش میں الجھ کر یا تو شدید احساسِ کمتری کا شکار ہو کر بالکل خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر انتہائی متعصبانہ روّیہ اختیار کر تے ہیں اور بات بے بات مشتعل ہوتے ہیں جو بذاتِ خود احساسِ کمتری کی ہی ایک جارحانہ شکل ہے۔ ایک عجیب مسلمان طبقہ وہ بھی ہے جو عموماً مقامی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے پڑھ کر اچھی ملازمتوں یا کامیاب کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں مگر خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے اسلامی شناخت و روایات کا مذاق اْڑاتے یا کسی اور شکل میں منحرف نظر آنے کے جنون میں مگن ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تضادات میں بغیر کسی شرمندگی کے پاکستانی وزیرِ اعظم نے اپنا روایتی لباس پہنے،فخر کے ساتھ بڑی طاقتوں کے آلہ کار ’’اقوامِ متحدہ‘‘کے فورم پر کھڑے ہوکر بآ وازِ بلند کلمہ طیّبہ پڑھااور اسلام کو امن وآشتی کا مذہب قرار دینے پر اصرار کیا۔ رحمۃ العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک پرآبدیدہ ہونے والے اس رہنما کوتمام عالمِ اسلام میں عزّت کی نگاہ سے دیکھا گیا اب بہت سے لوگ اس بات پر معترض بھی ہو سکتے ہیں کہ لباس تو محض ظاہری شے ہے اس سے مسلمانوں کو درپیش گھمبیر مسائل اور بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حل میں کیا مدد مل سکے گی ، تو سوال یہ ہے کہ اپنی ثقافتی پہچان یا مذہبی شناخت سے جدا ہوکر کتنے مسائل ہیں جن کا طلسماتی طور پر حل سامنے آیا ہے ؟ کمال کی بات یہ ہے کہ عمران خان پر اس نوعیت کے اعتراضات سب سے زیادہ مخصوص پاکستانی میڈیا نے اْٹھائے ۔ کوئی بھی مذہبی و ثقافتی طبقہ فکر ہو اس سے وابستہ نمائندہ شخصیت کا رکھ رکھاو اپنے خطّہ کے لئے وجہ توقیر ہوتی ہے۔ جس کی ایک مثال انگلینڈ کی شہزادی کیٹ مڈلٹن ہیں۔اپنے دورہ پاکستان کے دوران جس طرح شہزادی نے پاکستان کی مذہبی و تہذیبی روایات کا احترام کیا ہے اس سے انگلینڈ کے بارے میں یہ تاثر بھی کم ہوا کہ برٹش اپنے فکر و عمل سے انتہائی بے لچک ہوتے ہیں۔۔ لطف تو تب آیا جب وہی مخصوص اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھے وہی چند حلق شگاف صحافی جو عمران خان کی تقریر و شلوار قمیض کو مسئلہ کشمیر کی راہ میں اہم رکاوٹ خیال کر رہے تھے، شہزادی کیٹ کے شلوار قمیض اور سر جْھکا کر تلاوت سْننے سے متاثر اور سراہتے ہوئے دکھائی دیے۔ ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے بلکہ سراہنے کا سلسلہ اس حد تک جا پہنچا کہ ایک انگریزی اخبار میں بھی شہزادی کے ملبوسات کے برانڈز پرآرٹیکلز چھاپے گئے۔یوں بھی وطنِ عزیز میں یہ ایک عمومی روّیہ سا بن گیا ہے جو ایک طرح سے معاشرتی قدروں کے زوال کی علامت بھی ہے کہ ہماری اکثریت کے لئے انسان کی شخصی اچھائی یا بْرائی تقریباً بے معنی ہو گئی ہے۔دوسروں کی ہی نہیں اپنی بھی قدر و منزلت کی بنیاد سْوت و ریشم کے دھاگوں پر رکھتی ہے جن سے بنا لباس زیبِ تن کیا گیا ہو اور یہ مقام و مرتبہ اس وقت تک اپنی معراج کو نہیں چْھوتا ہے جب تک اس سْوت یا ریشم کو کپڑے میں بدلنے والی معروف ٹیکسٹائل مِل یا ڈیزائنر کا نام واضح چسپاں نہ ہو جائے، اسے آپ ایک طرح کا ’’کیریکٹر سرٹیفکیٹ‘‘ ہی سمجھیں۔ذرا غور کریں تو ادراک ہوتا ہے کہ وہ دوپٹہ جو تقریباً غائب ہو نے کو ہے،اگر کہیں پہنا ہوا نظرآ جائے تو اپنا نہیں ’’سَت رنگی کا دوپٹہ‘‘ ہوتا ہے، کْرتا بھی اپنا کہاں’’ معروف کْرتا‘‘، کوئی خوبصورت شال بھی تو اپنی نہیں بلکہ برانڈکی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ اتنا مہنگا اہتمام کرکے بھی وہی تہی دامانِ جاں۔جب ہم خود کو لباس کے برانڈز سے جانتے و پہچانتے ہیں تو شہزادی کیٹ میڈلٹن کی کیا مجال تھی کہ بنا برانڈز نیم کے ہمارے دلوں میں گھر کر لیتی۔ وہ اپنے بچوں کا کھانا خود بنانے والی، ان کے جْھوٹے برتن خود دھونے والی، اپنے بچوں کو گود میں اْٹھائے یہاں وہاں پھرنے والی، بغیر چھوٹا یا چھوٹی ساتھ لئے ریسٹورنٹ پر جاکر ڈنر کرنے والی شہزادی قابلِ تعریف تو ٹھہری لیکن اپنی منکسرالمزاجی اور انسانیت پسندی کے لئے ذرا بعد میں۔ چلتے چلتے ایک برانڈ یافتہ دلچسپ واقعہ بیان کرتی چلوں۔۔کیونکہ میری عمر کا بیشتر حصّہ پردیس میں ہی گزر گیا اس لئے جب امّی جی حیات تھیں تو وہ اور اب میری چھوٹی بہنیں بڑی محبت سے میرے روایتی ملبوسات بناتی ہیں وہ بھی سیاہ رنگ سے میرے عشق کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اسی برس جولائی میں ’ادب بستی ڈیلیس‘ نے ایک یادگار مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب غزالہ خان اور مبّشر وڑائچ کی ان تھک محنتوں کا مْنہ بولتا ثبوت تھی۔ مشاعرہ کے بعد سامعین کے ساتھ تصویروں کا سیشن چل رہا تھا کہ ایک خاتون میرے کان میں گْھس کر بولیں کہ مَیں نے تین سال پہلے کا پروگرام ’رات گئے‘ میںآپ کا انٹرویو دیکھا تھا۔ مَیں ابھی خوش بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ان محترمہ نے مزید سرگوشی کی کہ ’اس میں بھی آپ نے یہی کالا سوٹ پہنا ہوا تھا جوآج پہنا ہے‘‘۔ اس لمحے جتنا کرب و مایوسی ان کے چہرے پر تھی ، ایک بار تو دل چاہا کہ سچّے دل سے معافی مانگ لوں۔۔۔لیکن یہ گستاخ دِل !!