20ویں صدی کے نصف اول میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم زیادہ تر یورپ کی سرزمین پر لڑی گئیں۔ ان دونوں جنگوں میں تاریخ انسانی کی سب سے ہولناک تباہی دیکھنے میں آئی۔ پہلی جنگ عظیم میں ساڑھے تین کروڑ فوجی اور شہری لقمہ اجل بنے اور دوسری جنگ عظیم میں تقریباً 5کروڑ انسان نیست و نابود ہو گئے۔ جنگ کے آخری مرحلے پر امریکہ نے جاپان کے دو ہنستے بستے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو آن واحد میں ایٹم بم مار کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو گئے۔ مالی تباہی کا حساب لگانا ہی ممکن نہیں۔ اس وقت میرا یہ موضوع نہیں وگرنہ دونوں جنگوں کی ہولناکیوں کے بعد تو حضرت انسان کو یہ عمرانی و سیاسی معاہدہ کر لینا چاہیے تھا کہ اب توپ اور بم تو کجا بندوق تک نہ بنائی جائے گی‘ نہ اٹھائی جائے گی اور نہ چلائی جائے گی۔ مگر اب تو پہلے سے ہزار گنا زیادہ تباہی و بربادی کا سامان اکٹھا کر لیا گیا۔20ویں صدی کے نصف آخر میں لائی جانے والی تباہی و بربادی کا میدان جنگ زیادہ تر مسلمان ممالک ہیں۔ دنیا کی ’’ترقی یافتہ اقوام ‘‘ نام تو امن کا جپتی ہیں مگر اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی کھپت بڑھاتی جا رہی ہیں۔ اس سارے اسلحے کی کھپت زیادہ تر امیر اور غریب دونوں طرح کے اسلامی ممالک میں ہو رہی ہے۔ اس بار عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے بڑی چالاکی سے اپنے علاقوں کو جنگوں کی ہولناکیوں سے محفوظ کر لیا ہے۔ آپ عالم اسلام پر نظر دوڑائیں تو فلسطین سے لے کر کشمیر تک عراق سے لے کر شام تک‘ یمن سے لے کر لبنان تک ذرا ماضی میں جائیں تو کویت سے لے کر ایران تک اور افغانستان سے لے کر پاکستان تک جنگوں سے ہونے والی انسانی و مالی تباہی کے روح فرسا مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ ان گرم جنگوں کے علاوہ سعودی عرب اور ایران میں سرد جنگ بھی جاری ہے۔ برطانیہ امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے مل کر سرزمین فلسطین پر ان کے اصلی مالکان سے اراضی چھین کر اور وہاں سے زیادہ تر فلسطینیوں کو نکال کر صیہونی ریاست قائم کر دی۔ اہل فلسطین اور عربوں نے 1948ء سے لے کر 1973ء تک کسی نہ کسی انداز میں اس غاصبانہ قبضے کی بھر پور مزاحمت کی مگر بالآخر اسرائیل کے پشتیان امریکہ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ’’امن معاہدہ‘‘ اور فلسطینی ریاست کا چکمہ دے کر تحریک مزاحمت کے بدن سے روح نکال دی۔اس دوران ترقی یافتہ مہذب اقوام نے اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کی۔ انہوں نے مسلم عرب ملکوں کو اسرائیل کی طرف سے ہٹا کر آپس کے تنازعات اور جنگوں میں الجھا دیا۔ عراق تہذیبی و عسکری قوت کا مرکز تھا۔ 1970ء کی دہائی میں یہ قول عام تھا کہ عرب دنیا میں کتاب بیروت میں چھپتی اور بغداد میں پڑھی جاتی ہے اسی طرح فوجی قوت کے اعتبار سے عراق اسرائیل کے لئے ایک خطرہ سمجھا جاتا تھا۔1979ء میں امام خمینی کا انقلاب ایران میں آیا تو صدر صدام حسین نے سمجھا کہ اب عراق کے شیعوں کو ان کے خلاف آمادہ بغاوت کیا جائے گا۔ اسی طرح سعودی عرب اور کئی دوسرے عرب ممالک نے یہ سوچا یا انہیں اس سوچ کی طرف مائل کیا گیا کہ ایران کا یہ ’’شیعہ انقلاب‘‘ ایران سے باہر پڑوسی عرب ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جائے گا۔ جس سے ان کی بادشاہتیں متزلزل ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اس مفروضے پر عراق نے اپنے زور بازو کے مظاہرے کے لئے اسرائیل کے بجائے ایران کا انتخاب کیا اور یوں 22ستمبر 1980ء کو شروع ہونے والی جنگ پورے آٹھ سال کے بعد 1988ء میں اختتام کو پہنچی۔اس جنگ میں عراق کو ہلہ شیری دینے والے ممالک میں امریکہ‘ برطانیہ ‘ سوویت یونین‘ فرانس اور بہت سے عرب ممالک شامل تھے۔ عرب ممالک نے تو عراق کی زرکثیر اور اسلحہ سے بھی مدد کی۔ اس جنگ میں عراق اور ایران دونوں کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس تباہی کو روکنے کے لئے او آئی سی نے بہت کوششیں کیں مگر ان کی مساعی بارآور نہ ہو سکی اور بالآخر جب دونوں ممالک لڑ لڑ کر تھک گئے تب یو این کے ذریعے سیز فائز ہو گیا۔ اس وقت ایران اور سعودی عرب کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر ہے۔ موجودہ حالات میں یمن اور شام پراکسی وار کے گرم ترین محاذ ہیں۔ ٹھیک ایک ماہ پہلے سعودی عرب کی دو آئل تنصیبات پر کروز میزائلوں کے حملے کے نتیجے میں وقتی طور پر تیل کی پیداوار کا ایک حصہ بہت متاثر ہوا۔ حملے کے فوراً بعد یمن کے حوثی قبائل نے اس میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی مگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ایران کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جبکہ ایران نے اس الزام کو سختی سے رد کردیا تھا۔ سعودی عرب نے بھی ایران پر اپنے شک کا اظہار کیا اس حملے کے کچھ دنوں بعد خلیج میں ایران کے ایک آئل ٹینکر پر بھی کچھ اس طرح کا حملہ ہوا جس کی ایران نے مذمت کی۔ ان حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی جسے حسب توقع امریکہ نے ہوا دی اور اپنے کئی ہزارمزید فوجی سعودی عرب میں اتار دیے۔ ساری امریکی سپاہ کا خرچ سعودی عرب برداشت کرے گا۔ تاہم پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور عراق کے وزیر اعظم عادل المہدی نے دونوں برادر ملکوں کے درمیان مفاہمت اور جنگی خطرات کو دور کرنے کے لئے کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ اگر خدانخواستہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کا سماں پیدا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ نازک صورت حال پاکستان کے لئے ہو گی۔ اگر پڑوسی ملک کے آنگن میں آتش و آہن کی بارش ہو گی تو ہمارا آنگن کیسے محفوظ رہے گا۔ وزیر اعظم پاکستان اتوارکو ایران کے ایک روزہ دورے پر گئے تھے۔ جہاں صدر حسن روحانی کے ساتھ ان کی تفصیلی بات چیت ہوئی۔ جناب عمران خان کی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات ہو گئی۔ ایران نے گرم جوشی سے ہمسایہ اسلامی ملک پاکستان کے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم آج جدہ جائیں گے۔ امید ہے کہ وہاں سے مثبت رسپانس ملے گا۔ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے ایما پر جناب عمران نے امن مشن کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دو بڑی اسلامی قوتوں کو کسی حد تک ادراک ہو گیا ہے کہ یہ سرد جنگ اور یہ گرم محاذ کسی کے حق میںنہیں۔ جناب عمران خان نے دونوں برادر ملکوں کو پیش کی ہے کہ مذاکرات کے لئے اسلام آباد میں ہمیں میزبانی کا شرف بخشیں۔ اس دورے میں جناب عمران خان نے ایک لطیف نقطے پر توجہ مرکوز رکھی کہ ہم ان مذاکرات میں ثالث کا نہیں سہولت کار کا کردار ادا کریں گے۔ شیکسپیر نے اپے شہرہ آفاق ڈرامے جولیس سیزر میں ایک بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ’’اے قوت فیصلہ تو بھاگ کر وحشی درندوں کے پاس چلی گئی اور انسان اپنی عقل کھو بیٹھے ہیں‘‘۔ دانائی مومن کی گمشدہ متاع ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ برادر اسلامی ممالک مفاہمت و اخوت اور دانائی کے ذریعے اپنے اختلافات مذاکرات سے حل کر لیں۔ ٭٭٭٭٭