پاکستان مسلم لیگ ن کے فیصل آباد سے پانچ بار منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی اور جولائی2018کے الیکشن میں فیصل آباد ہی سے قومی اسمبلی کے رکن رانا ثناء اللہ جب دوپہر کا کھانا اپنے آبائی گھر سے تناول کر کے لاہور کیلئے موٹروے سے روانہ ہولئے ۔۔۔تو اپنے ارد گرد درجن بھر گاڑیوں کو ساتھ چلتے دیکھ کر انہیں اندازہ تو ہوگیا تھا کہ وہ لاہور میں داخل ہونے سے پہلے ہی پابند سلاسل ہوجائیںگے۔اپنے موبائل فون سے اپنے گھر اور ساتھیوں کو بھی انہوں نے اس کی اطلاع دے دی تھی کہ انہیں گرفتار ی کیلئے گھیرا جارہا ہے۔مگر رانا صاحب کو یہ علم نہ ہوگا کہ انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس مبینہ طور پر اُن کی گاڑی سے 15کلو منشیات برآمدگی کیس میں دھرے گی۔مقدمہ زیر سماعت ہے۔ایک زمانے میں عدالتی زبان میں ماہرین قانون کہاکرتے تھے کہ زیر سماعت مقدمات پر لکھنے اور بولنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔مگر وطن عزیز میں اس بات پر بیک وقت ہنسنا اور رونا آتا ہے۔ماضی کی طول طویل تاریخ میں نہیں جاؤں گا کہ اس مملکت خداداد پاکستان میں تو عدالتیں بھی جیل کے چار پھاٹکوں کے اندر لگتی رہی ہیں۔حیدر آباد جیل جہاں1951میں پنڈی سازش کیس چل چکا تھا۔میں خود مرحوم خان عبد الولی خان اور ان کے 54ساتھیوں پر چلنے والے سازش کیس کی رپورٹنگ کرچکا ہوں۔جی ہاں۔باقاعدہ ایک کے بعد دوسرے ،دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے پھاٹک کھلنے کے بعد ایک وسیع بیرک میں باقاعدہ عدالت ۔۔ججز حضرات کی چار اونچی کرسیاں اُن کے دائیں بائیں گُرز سنبھالے اہلکار۔دائیں ہاتھ پر کٹہرے میں ملزم بائیں ہاتھ پر وکیل صفائی اور سامنے کرسیوں پر ملزمان اور ملزمان بھی کیسے سخت گیر بلوچ،پشتون قوم پرست جن کے سامنے ججز سمیت سارا عملہ سہما بیٹھا ہوتا تھا۔یہ لیجئے۔ میں پھر عادت کے مطابق بھٹکتا ہوا منشیات کیس میں ملوث رانا ثناء اللہ کو کہیں دور پیچھے چھوڑ آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس زمانے میں ،میں سی این بی سی پاکستان چینل سے وابستہ تھا ۔فیصل آباد سے بجٹ پر خصوصی نشریات میں مجھے گھنٹہ دیا گیا کہ حالات ِ حاضرہ پر گفتگو کروں۔اب رانا صاحب کے بغیر پروگرام مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ہاتھ ملاتے ہی حیرت کا اظہار کیا کہ Liveشو میں ،آپ مجھے کیسے برداشت کریں گے۔مگر نہ صرف Liveپروگرام گیا بلکہ رانا صاحب نے بھی ہماری نوکری کا پاس رکھا۔ادھر دہائی اوپر میں اُن سے براہ راست اور بیپر پر کئی انٹرویوز ہوئے۔رانا صاحب پر سب سے کڑاوقت ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی فائرنگ کا تھا کہ اُن کے وزیر داخلہ پنجاب ہوتے ہوئے 17بندے ہلاک ہوئے تھے۔ایک بار نہیں ،کئی بار ہمارے وزیر اعظم عمران خان اپنے دھرنوں کے دوران شریف اور زرداری خاندا ن کے ساتھ جس لیگی رہنما پر حملہ آور ہوتے تھے وہ ہمارے رانا ثناء اللہ تھے۔خان صاحب تو وزیر اعظم بننے سے پہلے یہاں تک بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے نام لے کر دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں اس کی مونچھیں پکڑ کر گھسیٹتا ہوا جیل بھیجوں گا‘‘۔۔ رانا صاحب کے اس کیس نے ماضی کے ایسے بے شمار مقدما ت کی یاد تازہ کردی جس میںہمار ے پہاڑ جیسی کرسی پر بیٹھے حکمراں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اُس کی خوشنودی کیلئے ہمارے روایتی سرکاری تحقیقاتی اداروں کے موقع شناس اہلکاروں کا جب بس نہیں چلتا ہے تو وہ اپنی کارکردگی اور کارگزاری دکھانے کیلئے کس سطح تک اتر جاتے ہیں۔اور پھر سیاست اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اس بات کا بھی شاہد رہا ہوں کہ خود اُن حکمرانوں اور اُن کے اہلکاروں کو بھی بعد میں کیسے کیسے شرمناک سلوک کا سامناکرنا پڑا۔سیاستدانوں پر بعد میں آؤں گا۔پہلے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دو ر میں اس وقت کے عوامی شاعر حبیب جالبؔاور پنجابی کے شاعر استاد دامنؔ پر دائر مضحکہ خیز مقدمات کا سن لیں۔ایوبی دور میں کہا جاتا تھا کہ اصل حکمرانی مغربی پاکستان میں نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کی تھی۔اُس وقت کے راوی کہا کرتے تھے کہ جب نواب صاحب کی گاڑی لاہور کے مال روڈ سے گزرتی تو پتہ کھڑکنے کی آوازبھی نہ آتی۔ ایک ایسے وقت میں جب سارے سیاستداں اپنی حویلیوں اور اوطاقوں میں دم سادھے بیٹھے تھے۔اخبارات کو سانپ سونگھے ہوئے تھا۔ایک شاعر کی یہ ہمت اور جرأت ۔۔۔نواب کالا باغ کا حکم تھا۔شام سے پہلے حوالات میں ہونے کی خبر انہیں ملنی چاہئے۔سہ پہر ہوتے ہی جالب صاحب لاہور کافی ہاؤس میںآجاتے۔وہیں سے پکڑ کر سیدھے بھاٹی گیٹ تھا نے کی حوالات میں لے گئے۔پنجاب کی پولیس سارے ملک میں کیا۔۔۔غالباً ساری دنیا میں جھوٹے مقدمات بنانے میں ثانی نہیں رکھتی ۔اگلے دن عدالت میں پولیس کی جانب سے یہ مقدمہ درج ہوا کہ جالبؔ صاحب لاہور ہیرا منڈی میں گانا سن رہے تھے۔اُن کے بیگ میں شراب کی آدھی بوتل اور ایک چاقو بھی تھا۔ان کے ساتھ لاہور کا مشہور دس نمبری وارث بھی بیٹھا تھا ۔گانے کے دوران جالبؔصاحب کا وارث سے جھگڑا ہوگیا ۔جس پر جالب صاحب نے اُس دس نمبری لحیم شحیم غنڈے کو چاقو ماردیا۔ایک نہیں تین کیس بنے ۔بغیر لائسنس کوٹھے پر گانا سننا۔پھر غیر قانونی شراب اور تیسرے دفعہ 307یعنی اقدامات قتل ۔اگلی پیشی چار دن بعد رکھی گئی۔اگر یادداشت غلط نہیں تو شائد جسٹس ایس اے رحمٰن کی عدالت تھی۔وکیل بھی کون ،میاں محمود علی قصوری،جن کے بارے میں کہا جاتا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ میں دلائل دیں تو کراچی میں اُس کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔میاں صاحب کہتے ہیں۔’’جج صاحب ،نہیں ہوسکتا۔یہ نہیں ہوسکتا۔میں جالبؔ کے خاندان کو جانتا ہوں۔یہ کسی کو چاقو تو کیا ،کسی کو آنکھ بھی نہیں مار سکتا۔‘‘عدالت قہقہوں سے گونج اٹھتی ہے۔اس پر جسٹس رحمٰن کہتے ہیں۔’’مگر میاں صاحب سارا لاہور بلکہ ملک جانتا ہے کہ جالبؔ صاحب پیتے ہیں۔‘‘اس پر میاں صاحب پھر گرجتے ہوئے کہتے ہیں: نہیں ،یہ بھی غلط اور جھوٹا الزام ہے۔اس پر جسٹس رحمٰن کہتے ہیں۔’’میاں صاحب یہ تو زیادتی ہے۔‘‘ اس پر میاں محمود علی قصوری کہتے ہیں:’’جسٹس صاحب،جالبؔ کے بیگ سے آدھی بوتل نکلی۔یہ نہیں ہوسکتا۔یا تو وہ بھری ہوئی ہوتی یا خالی‘‘۔اس پر جسٹس رحمٰن کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔پولیس کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں۔’’آجاتے ہیں الٹے سیدھے مقدمات لے کر‘‘۔ جالب ؔ صاحب اس کیس سے تو خیر بری ہوجاتے ہیں۔مگر ۔۔۔چند دن بعد پھر پکڑے جاتے ہیں ۔اور یہ سلسلہ ایوبی آمریت کے خاتمے تک جاری رہتا ہے۔ (جاری ہے)