پاکستان کو ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018ء منظور کرنے پر جس قدر پذیرائی دنیا بھر میں ہم جنس پرستی کا تحفظ کرنے والی عالمی تنظیموں نے کی ہے، یہ ’’ذِلّت‘‘ کسی اور مسلمان ملک کے مقدر میں نہیں آئی، بلکہ خطے کے کسی غیر مسلم ملک کو بھی یہ ’’غلیظ اعزاز‘‘ حاصل نہ ہو سکا۔ مارچ 2020ء میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ (ICJ) کی رپورٹ کا یہ فقرہ بل منظور کرنے والے سینٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کی ’’فرد عمل‘‘ میں درج ہو چکا ہے، اور اس کا جواب انہیں روزِ حشر دینا ہو گا۔ "It is also commendable that transgender activists and organizations were meaningfully and actively consulted in the drafting process of the law, and their concerns are to a large extent reflected in the final draft that was enacted..... Which makes the Act one of the most far Reaching in the region, if not the world over." ’’یہ انتہائی قابل تعریف بات ہے کہ قانون بناتے وقت ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے متحرک اراکین اور ان کی تنظیموں کو ’’پر معنی‘‘ انداز میں شامل کیا گیا اور ان کی مشاورت اور خیالات کو اس قانون کا بھر پور حصہ بنایا گیا جسے اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ اس طرح یہ قانون اگر دنیا بھر میں نہیں تو خطے میں ایک ایسا قانون بن گیا ہے جس کے دُوررس اثرات ہوں گے‘‘۔ پاکستان کے بارے میں اس خصوصی رپورٹ کے ہر صفحے پر پاکستان کی تعریف کے ڈونگرے برسائے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ کی اشاعت نے ہر مسلمان پاکستانی کو چونکا کر رکھ دیا، لیکن پاکستان کی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اراکین کو شاید اس کی خبر تک نہ ہو سکی۔ شاید اس لئے کہ الیکشن ہو چکے تھے، نئی حکومت آ چکی تھی اور سب کے سب اپنی نئی سیاسی لڑائیوں میں اُلجھ چکے تھے۔ سیاسی علمائے کرام کے نزدیک تو اب ’’منبع کفر‘‘ عمران خان اور پی ٹی آئی تھی اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو ویسے بھی اس بل کے بارے میں کبھی بھی جذباتی نہیں رہے اور آج بھی ان دونوں پارٹیوں کی حالت ایسی ہی ہے۔ اب ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ کوئی اسلام سے وابستگی رکھنے والا سچا مسلمان وفاقی شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ دو نوجوان حماد حسن اور محمد عرفان سامنے آئے اور وفاقی شرعی عدالت جا پہنچے۔ میرے نزدیک ان دونوں کا درجہ اور مقام و مرتبہ ان اراکین پارلیمنٹ کے سامنے اعلائے کلمتہ الحق کے قافلہ سالار سیدنا امام حسین ؓ کے راستے کے مسافروں جیسا ہے۔ تمام سیاست دانوں اور سیاسی علماء کی بدترین خاموشی میں 30 ستمبر 2020ء کو وفاقی شرعی عدالت نے پٹیشن کو سننے کیلئے منظور کیا اور حکومت کو نوٹس جاری کر دیئے۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے ٹال مٹول کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی نوٹس نہ ملنے کا بہانہ لگایا جاتا اور کبھی جواب کیلئے مہلت مانگی جاتی۔ اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔ ایک دن یہ دونوں نوجوان مقدمے کی فائلیں اُٹھا کر اسلام آباد سے میرے پاس لاہور آئے کہ شاید میڈیا پر بات کرنے سے ایوانوں میں ہل چل پیدا ہو گی۔ یہ وقت بہت اذیت ناک تھا۔ یوں لگتا تھا پورے ملک میں کوئی اس پر نہیں بول رہا اور صرف یہ دو نوجوان دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ میں نے 7 مئی 2021ء کو ’’فروغ ہم جنس پرستی ایکٹ‘‘ کے نام سے کالم لکھا اور اپنے پروگرام ’’حرفِ راز‘‘ میں بار بار اس کا ذکر کیا۔ مگر لوگ تو میڈیا پر صرف چونکا دینے والی باتیں ہی سننا چاہتے ہیں، خاص اثر نہ ہوا تو میں نے خود بحیثیت پٹیشنرز وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا اور 27 اکتوبر 2021ء کو مجھے پٹیشنر بنا لیا گیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے بنانے والوں نے پارلیمنٹ کے سامنے یہ جھوٹ بولا تھا کہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے بنایا گیا ہے۔ میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدف بناتے ہوئے ایک کالم تحریر کیا تو کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے مجھے 8 نومبر 2021ء کو ایک خط لکھا جس میں یہ بتایا کہ یہ ایکٹ تو کونسل میں کبھی زیرِ بحث آیا ہی نہیں، اور اس کے ساتھ انہوں نے ایکٹ کی تمام غیر اسلامی شقوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ میں نے جب یہ خط عدالت کے سامنے رکھا تو ایک بھونچال آ گیا، مقدمے میں جیسے تیزی آ گئی ہو۔ اس کے بعد پاکستان میں ہم جنس پرستی کے فروغ کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے اچانک وفاقی شرعی عدالت کا رُخ کر لیا اور وہاں ہر پیشی پر ایک ہنگامہ برپا ہونے لگا۔ میڈیا میں ان کے حامی اینکروں نے ٹرانسجینڈروں کو خواجہ سراء کے بہروپ میں بلا کر پروگرام شروع کر دیئے۔ ہماری جانب سے پانچ ماہ کی سماعتوں میں اس بل کے خلاف تمام دلائل مکمل ہو چکے ہیں، جن میں میری جانب سے تین سو صفحات پر مشتمل تمام فقہی مسالک کی آراء کے ساتھ تفصیلی دلائل بھی جمع کروائے گئے ہیں۔ گیارہ اپریل 2022ء کو وفاق کو جواب کا نوٹس ملا مگر فوراً چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہو گئے اور وفاقی شرعی عدالت کا وجود ہی نہ رہا۔ نئے وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنی مصروفیات میں کہاں ہوش تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس بھی لگانا ہے۔ یہ کام آج تک نہیں ہو سکا، مگر عدالتی کارروائی کو چلانے کیلئے باقی دو ججوں میں سے ایک کو قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات دے دیئے گئے اور بالآخر 20 ستمبر 2022ء کو سماعت ہوئی۔ یہ سماعت بہت معرکتہ الآراء تھی۔ اس میں تین اہم لوگ پٹیشن کا حصہ بنے ایک سینیٹر مشتاق احمد جو گذشتہ ایک سال سے بل کے خلاف واحد نڈر آواز تھے۔ سینٹر مشتاق صاحب میرے پروگراموں میں بھی اس بل سے متعلق کئی بار تشریف لائے۔ دوسری اہم شخصیت الماس بوبی کی تھی، جو پاکستان بھر کے ’’اصل خواجہ سرائوں‘‘ کی واحد رہنما ہے۔ اس نے وہاں لاتعداد انکشافات کئے۔ جن میں سب سے اہم یہ تھا کہ اب تک تشدد یا ہراسمنٹ (Harasment) کے تحت مارے جانے والوں میں سے کوئی ایک بھی خواجہ سراء نہیں تھا بلکہ وہ سب کے سب ہم جنس پرست ٹرانسجینڈر تھے جو خواجہ سراء کا روپ دھارے ہوئے تھے اور ان کے پوسٹ مارٹم نے معاملہ افشاء کر دیا۔ لیکن میڈیا کی غلاظت یہ ہے کہ وہ انہیں ابھی تک خواجہ سراء بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس بل سے خواجہ سراء کمیونٹی کی بجائے مختلف اداروں میں ہم جنس پرست بہروپیئے آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ عدالت میں تیسرے اہم کردار پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر بھی پیش ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس بل کو بنانے میں شریک رہے ہیں اور عدالت کو اس کی تاریخ سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ اس سماعت کے بعد دو اہم باتیں ہوئیں۔ ایک یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رپورٹ جمع کروائی اور بل کو غیر شرعی قرار دے دیا اور دوسری یہ کہ وفاقی شرعی عدالت نے ایسے تمام افراد کی فہرست طلب کر لی جنہیں بحیثیت خواجہ سراء ملازم رکھا گیا اور ساتھ یہ بھی پوچھا کہ یہ بتائیں کہ انہیں خواجہ سراء کی حیثیت دینے کیلئے کون سے ثبوت مانگے گئے تھے۔ یہی وہ اہم ترین قانونی شق ہے جس پر یہ ایکٹ ہم جنس پرستوں کو راستہ دیتا ہے۔ اس ایکٹ میں ایک لفظ بار بار لکھا گیا ہے، "Self Perceived Gender Identity" یعنی ’’آپ کی اپنی نظروں میں آپ کی جنسی شناخت‘‘ ، یعنی آپ کی اپنی گواہی ہی آپ کے شناختی کارڈ پر جنس کے تعین کیلئے کافی ہے۔ اسی بنیاد پر گذشتہ تین سالوں میں 28,733 افراد نے نادرا میں جنس کی تبدیلی کیلئے درخواستیں جمع کروائیں۔ 16,530 مردوں نے عورت بننے کیلئے اور 12,154 عورتوں نے مرد بننے کیلئے۔ اس وقت پارلیمنٹ کی سطح پر تین ترمیمی بل پیش ہو چکے ہیں۔ ایک سینیٹر مشتاق کا بل ہے جنہوں نے اس ایکٹ کی غیر شرعی شقوں کو تبدیل کرنے کیلئے پیش کیا ہے جبکہ اس ٹرانسجینڈر ایکٹ کو مزید مضبوط بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی شاہدہ رحمانی اور قادر مندوخیل نے دو مختلف ترامیم پیش کر رکھی ہیں جس کے تحت اس ٹرانسجینڈر بل کے دائرے کو دیگر ملکی قوانین تک پھیلانا ہے۔ دیکھئے پارلیمنٹ میں سینیٹر مشتاق کامیاب ہوتے ہیں یا قادر مندوخیل اور شاہدہ رحمانی۔ جبکہ وفاقی شرعی عدالت میں جنگ تو جاری ہے۔ (ختم شد)