دو اڑھائی ہفتے سے عراق اور لبنان طوفانی مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ لبنان میں تو وزیر اعظم سعد حریری کو استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ دونوں ملکوں میں مظاہرے مہنگائی‘ ٹیکسوں میں اضافے اور کرپشن کے خلاف شروع ہوئے اور بعد میں رخ غیر ملکی سیاسی مداخلت کے خلاف ہو گیا۔ لبنان میں عوامی احتجاج اور غم و غصے کا نشانہ حزب اللہ بنی جس کا حریری کی حکومت پر غلبہ تھا۔ اس لئے حزب اللہ نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور خانہ جنگی کی دھمکی بھی دی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکا کی تعداد20لاکھ سے بھی زیادہ تھی جبکہ حزب اللہ دس ہزار افراد پر مشتمل جلوس ہی نکال سکی۔ حزب نے کئی مقامات پر مظاہرین پر حملے بھی کئے اور ان کے احتجاجی کیمپ توڑ پھوڑ دیے۔ لبنان کی کل آباد 60لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اتنی آبادی میں 20لاکھ کے جلوس ایسے ہی ہیں جیسے لاہور میں چالیس لاکھ کا جلوس نکل آئے۔ لبنان میں مظاہرین ٹیکنو کریٹ حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں جو حزب اللہ کو قبول نہیں ہے۔ اس طرح حریری کے استعفے کے باوجود حالات مستحکم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ عراق میں مظاہروں پر فائرنگ نے قیامت ڈھا دی ہے۔ سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے کہیں بھی فائرنگ نہیں کی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہروں پر فائرنگ کرنے والے نقاب پوش تھے۔ تمام تر مظاہرے عراق کے جنوب میں بغداد‘ بصرہ‘ کربلا‘ نصیریہ وغیرہ میں ہو رہے ہیں۔ کرد علاقے اور سنی اکثریت کے شمال مغربی علاقے میں کوئی مظاہرہ نہیں ہو رہا۔ مذہبی رہنما آیت اللہ صدر مظاہرین کی حمایت اور حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عراق میں بھی مظاہروں کی نوعیت فرقہ وارانہ یا نسلی نہیں ہے بلکہ ان کا رخ ایران کے سیاسی دبائوکے خلاف ہے۔ آنے والے دنوں میں عراق کے اندر استحکام کی صورت حال مزید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ عراق میں اب داعش کوئی خطرہ نہیں رہی۔ اگرچہ مغربی صحرائوں میں اس کے کچھ پالک اب بھی باقی ہیں لیکن وہ عراق کے اندر کوئی بھی کارروائی کرنے کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر عراق حکومت بہت سے مسائل حل کر سکتی تھی لیکن وہ ایران اور اینٹی ایران چپقلش میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ روز وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انوکھا دعویٰ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ان کی حکومت راکٹ پر بیٹھ کر اوپر کی طرف جائے گی۔ البتہ پروگرام میں شریک حافظ حمداللہ جن کی پاکستانی شہریت چند ہی گھنٹے قبل بحال ہوئی تھی نے یہ سوال پوچھ لیا کہ کیا یہ وہی راکٹ ہے جو وزیر سائنس فواد چودھری نے ایجاد کیا تھا؟ اس حکومت کے راکٹوں کی بہت دھوم ہے۔ فواد چودھری نے پہلا پاکستانی خلا میں لے جانے کا دعویٰ کیا اور ساتھ یہ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کو بھی پی ٹی آئی کی حکومت کی تحویل میں دے دیا۔ ایک قسم راکٹ یا میزائل کی وہ تھی جس کے بارے میں شیخ رشید نے انکشافات کئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی وزارت ریلوے نے دور مار میزائل بنا لئے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے تفصیل نہیں بتائی کہ دور مار سے کیا مراد ہے‘ کیا یہ میزائل چاند تک مار کر سکتے ہیں یا نہیں‘ شاید وہ وضاحت کر کے فواد چودھری کی وزارت سے مسابقت کا تاثر نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان دعوئوں کو کئی مہینے ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ یہ حضرات تو اپنی جگہ راکٹ ساز ہوئے‘ فیصل واوڈا کے دعوے اپنی جگہ راکٹ ہیں۔ چند ماہ پہلے انہوںنے کہا تھا کہ دو چار ہفتوں میں اتنی نوکریاں اور ملازمتیں پیدا ہونے والی ہیں کہ لوگ کم پڑ جائیں گے۔ نوکریاں لوگوں کو ڈونڈتی پھریں گی۔ راکٹی دعوے پر اتنے پُر یقین تھے کہ پورا نہ ہوا تو میری تکا بوٹی کر دینا۔ بہرحال‘ دونوں ہی باتیں راکش بن کر اوپر پرواز کر گئیں۔ اب دیکھیے حکومت راکٹ پر بیٹھتی ہے اور وہ کتنی رفتار سے اوپر کو جاتا ہے۔ اس طرح کے راکٹ ساز دعوے خود قائد تبدیلی مآب بھی کر چکے ہیں۔ مثلاً دو ہفتوں تک سمندر کی کسی چٹان سے اتنا تیل نکلنے والا ہے کہ پچاس سال کی ضرورت پوری کر دے گا۔ اگرچہ حفظ ماتقدم کے طور پر یہ بھی کہہ دیا کہ گیس لیک بھی ہو سکتی ہے۔ پچاس لاکھ گھروں‘ ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے بھی ’’ راکٹ ساز ‘‘نکلے۔ ان کا تو خیر کیا پوچھنا، مینار پاکستان پر گیارہ نکاتی ایجنڈا دیا گیا تھا جو کب کا نو دو گیارہ ہو چکا۔ ان میں سے ہر ایک نکتہ راکٹ ساز تھا۔ راکٹ پر سوار ہو کر اڑنچھو ہو گیا۔ ارے ہاں‘ ابھی کل ہی کسی صاحب نے ایک پرانا اخباری تراشہ اپ لوڈ کیا ہے۔ اخبار کی تاریخ درج نہیں ہے۔تراشہ خاں صاحب کے بیان پر مشتمل ہے۔ سرخی یوں ہے’’14اگست کو بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ اقتدار ملا تو بجلی 2روپے یونٹ کر دیں گے۔ عمران خان‘‘ بادشاہت سے مراد نواز حکومت تھی۔ وہ تو ختم ہو گئی۔2روپے یونٹ سے کیا مراد تھی؟ ۔ شاید دو سو کی جگہ دو روپے کہہ گئے ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیرہ اطلاعات نے فرمایا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور انارکی میں فرق کیا جانا چاہیے۔ آزادی اظہار مثلاً کوئی یہ کہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے‘ اچھا وقت آنیوالا ہے۔ اپوزیشن بھارت کی ایجنٹ ہے۔ انارکی یعنی کوئی مہنگائی پر احتجاج کرے‘ بیڈ گورننس کا شکورہ کرے‘ ڈینگی پھیلنے پر شکایت کرے‘ پولیو کے کامیاب’’احیا‘‘ پر قصیدہ پڑھے وغیرہ وغیرہ۔