دنیائے اسلام کی عظیم اور قدیم دانشگاہ الازہر الشریف سے تعلیمی اشتراکِ عمل کے سبب ڈپلومیٹک روابطہ، گفت و شنید اور تبادلہ خیال رہتا ہے، جس میں پاکستان میں مصری سفیر الدکتور طارق دحروج بہت زیادہ پُرجوش ہیں، چند روز قبل اس ضمن میں وہ لاہور بھی تشریف فرما ہوئے ، مصری سکالرز اور بالخصوص جامعۃ الازہر سلوک و تصوّف میں، ہمارے اس خطے کے ہم مزاج ہیں، چند سال قبل نائب شیخ الازہر ڈاکٹر مہنا پاکستان آئے تو وہ صرف داتاؒ دربارتک محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے سیکیورٹی اہتمامات کی پرواہ کیے بغیر، پاکپتن شریف میں حضرت بابا فرید الدین مسعودؒ کے مزار پر حاضری کو بھی لازم جانا، وہاں سے واپسی پر انہوں نے داتاؒ دربار میں حاضری دی ۔خطبہ جمعہ کے موقعہ پر ان کے تاثرات ازحد د ل نشین اور پاکیزہ تھے ، الازہر کے علماء نے پاکستانی دینی طبقات کی طرف سے تشدّد اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ’’ پیغام ِپاکستان‘‘کے عنوان سے مدوّن ہونے والی عظیم دستاویز کی ناصرف تائید کی ، بلکہ شیخ الازہر نے ، جامعہ الازہرکی طرف سے اس کے عربی ترجمے کا بھی اہتمام و انصرام کروایا، جس کی رونمائی یقینا روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل میںسنگِ میل ثابت ہوگی ۔اسی تسلسل میں مصر کے گرینڈ مفتی ڈاکٹر شوقی عَلّام کو بھی گزشتہ عرصے میں پاکستان کا صدارتی اعزاز عطا ہوا۔مصری صوفیا و سکالرز…حضرت الشیخ الہجویر ؒکے احوال و افکار اور طریقِ تصوّف و معرفت کے از حد قا ئل ہیں، اس ضمن میں ڈاکٹر اسعاد عبد الہادی قندیل کی ڈاکٹریٹ بعنوان: ’’الہجویری و مذھبہ فی تصوّف کمایبدومن کتابہ کشف المحجوب‘‘ یعنی،حضرت ہجویر اوراُن کا مسلکِ تصوّف:ان کی کتاب کشف الحجوب کی روشنی میں کا تحقیقی مقالہ از حد وقیع اور معتبر ہے ۔ جو کہ جامعہ عین ُالشمس کے پروفیسر عبد النعیم محمد حسنین کی نگرانی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا، پی ایچ ڈی سکالر اسعاد عبد الہادی قندیل نے،جس کے ابتدائی کلمات میں لکھا تھا کہ کشف المحجوب سے میرا پہلا تعارف1957ء میں اس وقت ہوا، جب استاد گرامی ڈاکٹر ابراہیم امین شواربی،استاذ فارسی، کلیہ آداب،جامعہ عین شمس ہمیں’’ایران میں تصوّف‘‘ پڑھا رہے تھے،دوران تدریس میں استادِ محترم اسلامی تصوّف پر فارسی زبان میں لکھی گئی کتابوں کی طرف بہت اشارہ کرتے تھے ۔ ان کتابوں کے ذکر کے دوران میں، وہ مغموم بھی ہوتے اور پر اُمید بھی:مغموم اس وجہ سے کہ ان کتابوں کی اشاعت میں مستشرقین بازی لے گئے تھے اور بعض نے تو ان کتابوں کے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمے بھی کر لیے ۔ پُر امید اس بنا پر، کہ کسی روز ان کا کوئی شاگرد کمر ہمت باندھے گا اور اس اسلامی ورثے کو عربی زبان کا جامہ پہنا کر فکرِ اسلامی کے اس قابل قدر کام سے مکتبۂ عربی کو مالا مال کرے گا۔استادِ گرامی مطالعۂ تصوف کے دورانِ میں جن دو قابل قدر کتابوں کا بہ طورِ خاص ذکر کرتے تھے، ان میں سے ایک محمد بن منورؒ کی اسرارالتوحید فی مقامات الشیخ ابی سعید تھی اور دوسری علی بن عثمانؒ جلابی ہجویری کی کشف المحجوب۔ ڈاکٹر قندیل کہتی ہیںکہ میں نے ایم اے میں پہلی کتاب یعنی اسرار التوحید کو اپنا موضوعِ تحقیق بنایا اور1964 ء میں ابو سعید بن ابی الخیر ؒ اور کتاب اسرار التوحید پر اپنی تحقیق مکمل کی نیز اسرار التوحید کا فارسی سے عربی میں ترجمہ بھی کیا، اسی سال دوسری کتاب کشف المحجوب کو اپنے پی ایچ ڈی کے مکالے کو موضوع بنایا،وہ کہتی ہیں کہ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد بھی کشف الحجوب سے میرا تعلق قائم رہا ۔ میرا یہ شدید احساس تھا کہ اس کتاب کی قدرو قیمت کے پیشِ نظر اس کا عربی زبان میں ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو تصوّفِ اسلامی پر کام کر رہے ہیں لیکن فارسی زبان نہیں جانتے، وہ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ لہٰذا میں نے اس کتاب کو عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی ٹھانی ۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ میں نے حواشی و تعلیقات نیز کتاب میں مذکوراقوال و روایات کی اصل عربی ماخذ کی روشنی میں تحقیق و تخریج بھی کی۔ برصغیر یا جنوبی ایشیا کی دینی، فکری اور تہذیبی تاریخ پر حضرت داتا گنج بخشؒ کے نقوش، بلاشبہ اَن مٹ اور غیر متبدّل ہیں، صدیوں سے لوگ ان کے معتقد اور معترف ہیں، شاہانِ وقت سے لے کر عام زائرین و عقیدتمند ۔۔۔ ان کے دَر کی حاضری کو اپنے لیے ہمیشہ اعزاز اور افتخار جانتے ہیں۔ ہمارے علمی و دینی حلقوں اور سماجی طبقوں نے ان کو بطورِ صاحبِ کرامت بزرگ از حد اہمیت دی، دینِ اسلام کے اوّلین مبلّغ اور شریعت و طریقت کے قافلہ کے سالار کے طور پر ان کی حیثیت بھی از حد معتبر اور تسلیم شدہ رہی، لیکن تصوف و طریقت اور علمی ودینی طبقوں پر ان کے فکری اور ذہنی اثرات اور حاصلات کو اس درجے پذیرائی میسر نہ آ سکی، جس قدر آنی چاہیے تھی کہ جس کا عظیم ، ضخیم اور گراں قدر مجموعہ’’کشف المحجوب‘‘کی صورت میں دنیا کو میسر رہا۔ اس کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ ’’کشف المحجوب‘‘ تصوّف کی ایک ’’ٹیکسٹ بک ‘‘ہے، اور نصابی کتب تو سبقاً سبقاً پڑھنے ہی سے فائدہ دیتی ہیں، جس کی تصریح از خود صاحبِ کشف المحجوب نے کتاب کے ابتداء ہی میں فرما دی کہ اس کا یہ عنوان اس لیے چُنا کہ اس کے مندرجات کی ترجمانی ہو، اور مضامین تک رسائی وہی پائے گا ، جس کی چشمِ باطن ہو۔ شومئی قسمت! ہماری خانقاہیں اور مدارس، اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ اس کتاب کے بڑے معترف اور اپنی خانقاہ میں اس کے درس کا باقاعدہ اہتمام فرماتے۔ سبحان اللہ! کیا لذت اور حلاوت ہو گی اس نور پرور ماحول میں ، جہاں حضرت سلطانِ اولیاء کی کتاب کا مطالعہ حضرت سلطان المشائخ کی وساطت سے دنیا کو میسر آ رہا ہو گا، اور سُننے والوں میں حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت محی الدین کاشانی ؒ۔۔۔۔اور کیا کیا اصحابِ طریقت و محبت ہوں گے! ہمارے ماحول اور معاشرے میں شاعری بھی رسوخ اور پذیرائی کا ایک ذریعہ ہے، جیسے علامہ اقبالؒ۔۔۔۔ جن کی ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلام‘‘کا مطالعہ دشوار جبکہ’’ بالِ جبریل‘‘اور ’’بانگِ درا‘‘ کا از حد آسان ۔۔۔۔بلکہ کئی اشعارتو زبانِ زدِ عام ۔ اس بابت جو حادثہ ہوا، وہ از خود بیان فرما دیا کہ میرا دیوان کسی جعل ساز نے چُرا لیا، بصورت ِدیگر ایک تخلیقی شخصیت کے طور بھی، سوسائٹی میں تحسین اور پذیرائی بھی درجہ کمال پہ ہوتی رہتی۔ بہرحال امر واقعہ تو یہی ہے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے احوال و افکار تک رسائی کا ہم تک جو سب سے مستند و معتبر ذریعہ ہے ، وہ ’’کشف المحجوب ‘‘ہی ہے ، اور بلاشبہ وہ اُمہات کتب ِتصوف میں سے نمایاں ترین ہے، اور بعض محققین کے مطابق ’’رسالہ القشیریہ‘‘ کو اوّلیت میسر ہے، مگر مسلم تصوّف کی اوّلین فکری کتاب ہونے کا اعزاز ’’کشف المحجوب‘‘ہی کو حاصل ہے ،اس لیے کہ آپؒ کے عہد کے دینی حلقوں اور صوفیانہ زاویوں میں فلسفیانہ موشگافیوں اور نظریاتی بحثوں کا آغاز ہو چکا تھا، مسلم سوسائٹی میں نِت نئے افکار و خیالات دَر آنے لگے، آزاد رَوی اور تجدّد پسندی زور پکڑنے لگی ، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے عہد کے ان تقاضوں کو جانا ، سمجھا اور پھران منفی عوامل کا خوب تدارک بھی کیا ، جس کے نقشے اور نمونے کشف المحجوب میں جا بجا میسر ہیں۔