میں کوئی ن لیگ تو ہوں نہیں کہ مرا ان دنوں پیپلز پارٹی سے اتحاد ہو اور مجھے ان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات پر ہر حال میں ان کا ساتھ دینا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ جب آصف زرداری جیل میں تھے اور ان کے خلاف یکے بعد دیگرے ایک ایک مقدمہ ختم ہوتا گیا اور آخر میں مجید نظامی نے بھی انہیں مرد حر قرار دے دیا تو میں نے ایک کالم لکھا کہ ساری عمر پیپلز پارٹی کی مخالفت کرنے کا میں نے ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا‘ جب تم کوئی الزام ثابت ہی نہیں کر پا رہے تو لو میں بھی ہتھیار ڈالے دیتا ہوں۔اب کی بار عید پر اگر زرداری کراچی جیل میں ہوئے تو میں بھی انہیں ملنے ضرورجائوں گا۔اگلے ہی روز قیوم سومرو‘ زرداری صاحب کی طرف سے پھولوں کا گلدستہ اور کیک لے کرمرے دفتر آئے اور زرداری صاحب کی طرف سے محبت کا پیام دیا۔ اس کے بعد بھی جب تعلقات بہت خوشگوار تھے‘ مجھے یہ بات کھلتی تھی کہ وہ صدارتی استثنیٰ کے پیچھے کیوں چھپتے پھر رہے ہیں۔ اس لئے اس بات کا امکان ہے کہ اب جب ان پر ایک زور دار جے آئی ٹی نے پھڑکتی ہوئی رپورٹ پیش کر دی ہے تو میں یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جائوں کہ دیکھو اس میں کوئی بات ضرور ہو گی اور اس مقدمے کو پانامہ کے مقدمات سے الگ سمجھوں۔ یہ مرا حق ہے‘ مگر مجھے ڈر کسی اور بات کا ہے اور اس کا میں ان دنوں بار بار اظہار کرتا آیا ہوں۔ مرا خوف یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کہیں ملک بکھر نہ جائے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ طاقت ان کے ساتھ ہے اور وہ اس کے زور پر ملک میں ہر اختلافی آواز کو دبا سکتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ایسا ہوتا تو اس وقت راوی پورے ملک میں چین لکھتا۔ پہلے مجھے پنجاب کے بارے میں ڈر تھا کہ کراچی‘ بلوچستان اور فاٹا میں فوجی ایکشن کر کے ہم نے اپنی افواج کو بڑی مشکل میں ڈال رکھا ہے۔اب کہیں پنجاب سے بھی مخالفانہ آوازیں نہ اٹھنے لگیں۔ یہ مجھے کسی صورت بھی گوارا نہیں۔ اب مجھے سندھ کے بارے میں خوف ہے اور بہت شدت کے ساتھ ہے۔ ہم نے اس صوبے کو بھٹو کے بعد سلیقے سے کام ہی نہیں کرنے دیا۔ ہمیشہ مصنوعی بندوبست یہاں نافذ رکھا۔ایم کیو ایم بنوائی۔ مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سندھی قوم پرستوں کا توڑ کرنا تھا اور بھی ذیلی مقاصد تھے۔ پھر ہمیشہ کراچی میں مصنوعی حکومت بنتی رہی۔ کبھی اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی کے مخالف لے کر ان کا کراچی میں ایم کیو ایم سے اتحاد کروایا‘ کبھی کراچی میں ایم کیو ایم کے مخالفوں کو اندرون سندھ پیپلز پارٹی سے ملوا دیا۔ کبھی پیپلز پارٹی ‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کا ملغوبہ بنا ڈالا۔ عجیب عجیب حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ میں اس ساری جمع تفریق کو بہت قریب سے دیکھتا رہا ہوں۔ اس لئے بڑے دکھ سے کہتا ہوں کہ مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور صوبہ بھی بظاہر ان کے سپرد تھا‘ مگر جام صادق کو لگانے اور ہٹانے کا اختیار غلام اسحق خاں کے پاس تھا۔ مرکز میں زرداری برسر اقتدار تھے مگرصوبے میں وہ ایم کیو ایم اور اے این پی کو ساتھ رکھنے پر مجبور تھے۔ یہ ان کا انتخاب نہ تھا‘ ان کی مجبوری تھی۔ باگ کسی اور کے ہاتھ میں تھی ۔اب بھی کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ایم کیو ایم کو جس طرح توڑا گیا وہ فطری طریقہ نہیں ہے اور اس وقت کراچی میں جو دوبارہ تشدد کا کلچر آنکھیں کھول رہا ہے‘ وہ اسی مصنوعی بندوبست کا نتیجہ ہے۔ اس لئے سندھ سے میں بہت ڈرتا ہوں۔ آج سید مراد علی شاہ نے گیس پر حق جتایا ہے‘ کل وہ پانی پر اپنا استحقاق مانگ رہے تھے اور بہت سے بیانئے ہیں جو تشویشناک ہیں۔ اسی لئے تو سندھ کارڈ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ بے نظیر کی شہادت کے وقت ڈر تھا کہ یہ سندھ کارڈ بہت زیادہ فعال نہ ہو جائے۔ اس وقت جب زرداری نے پاکستان نہ کھپے کے مقابلے میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تو وہ ہمیں جان و دل سے عزیز ہو گئے۔ مگر اس وقت زرداری کے تیورکچھ اور کہہ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی بقا کے لئے 18ویں ترمیم کا نام لے رہی ہے۔ ہم نے ایک نہیں بے شمار بیوقوفیاں کی ہیں۔18ویں ترمیم میں ہم نے سب کچھ صوبوں کو دے دیا۔ فی الحال میں اس کے صرف ایک پہلو پر بات کر رہا ہوں۔ جب 58,2/Bکے تحت صدر کو حکومت توڑنے کا اختیار تھا تو کہا جاتا تھا کہ یہ مارشل لاء کے خلاف ایک حفاظتی والو ہے۔ صدر سے یہ اختیار چھین لو گے تو مارشل لاء کو دعوت دو گے۔ اس طرح کہا جاتا ہے کہ وفاق سے سارے اختیارات لے کر صوبوں کو دے کر آپ نے فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی ہے۔ کیونکہ وفاق کے پاس جب کچھ نہیں رہتا تو وفاق کے نام پر سارا کام فوج ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ کئی برس سے ایسا نہیں ہو رہا۔ یہ ایپکس کمیٹی کیا ہے‘ ہر تین ماہ بعد رینجرز کے اختیارات پر وفاق سے جھگڑا اورکیا ہے۔ آئی جی وغیرہ کی تقرری پر ہنگامہ آرائی اور کیا ہوا کرتی ہے۔ اس وقت کیا صورت حال ہے۔ آپ احتساب کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ سب عدالت کے نام پر یا حکم پر کر رہے ہیں‘ لڑائی مگر وفاق کی اور صوبے کی بن گئی ہے۔ کیا یہ کام اس طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ وفاق اس میں فریق نہ ہو۔ ہم نے ایسی صورت حال بنا دی ہے کہ منتخب حکومت کو جب چاہے ختم کر دیں اس کے لئے معمول کا طریق کار اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف کی برطرفی کے وقت یہی کیا گیا۔اب کیا یہ مناسب ہو گا کہ آپ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ای سی ایل پر ڈال کے لڈیاں ڈالنے لگیں۔ یہ احتساب یا عدالتی کارروائی سے زیادہ وفاق کی ایگزیکٹو قوت کا اظہار ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ہماری سمت درست نہیں۔ شیخ‘ چودھری‘ ووڈا سب کس لئے چیخ رہے ہیں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ہم جس کاروباری گروپ کو گرفت میں لے رہے ہیں اسی تک خود کو محدود رکھتے۔ دوران کارروائی کوئی دوسرا بھی آتا جاتا تو فطری ہوتا۔ مگر ہمیں تو جے آئی ٹی کا شوق پڑ گیا ہے۔ اب وہ کہہ رہے یہ ’’ون یونٹ‘‘ کی حکومت ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ تو اس لفظ کے پس منظر سے بھی واقف نہ ہوںگے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ون پارٹی سسٹم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب آپ چین یا ملائشیا کے نظاموں کی تعریف صرف کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے کریں گے تو ایسے ہی خیالات پیدا ہوں گے۔ جب لڑائی یہ بنا دی جائے کہ ایک طرف صوبائی خود مختاری ہواور دوسری طرف کم از کم یک جماعتی آمرانہ صدارتی نظام تو کیا خیال ہے اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ مرکز یا وفاق ایسی صورت میں فوج کو استعمال کرنے کا سوچے گا اور یہی خطرناک صورت حال ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایسی ہی تباہی مچا رکھی ہے۔ بلوچستان میں نوے فیصد علاقہ لیوی کے پاس ہے اور صرف 10فیصد پولیس کے۔ لیوی کسی کام کی نہیں چھوڑی۔ نتیجہ یہ ہے کہ سارا بلوچستان فوج کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ایف سی کی تعداد اتنی ہے جتنی فوج کی دو کور ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں کبھی ایک ڈویژن فوج ہوتی تھی اور یہ کراچی کور کا حصہ تھی۔ اب یہاں الگ کور ہے۔ ایف سی الگ ہے اور یہاں اب کور کمانڈر نہیں‘ پاک فوج کا سدرن کمانڈر ہوتا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے ہیں‘ ایک ایک کو شمالی وزیرستان کا دورہ کراتے ہیں مگر منظور پشین کی تحریک بھی تو یہاں زوروں پر ہے‘ اس وقت ہم جو کرنے جا رہے ہیں‘ یہ سندھ کے حالات کو ابتر کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاق عسکری قوت کے استعمال سے حالات پر قابو پا سکتا ہے۔ مگر یہ مستقل حل نہیں ہو گا۔ میں نے عرض کیا‘ سندھ اب تک مصنوعی‘ غیر فطری طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ یہ مسائل میں اضافے کے مترادف ہو گا۔ میں یہاں سندھ کی اہمیت پر کوئی مضمون نہیں باندھنا چاہ رہا‘ صرف اس بات کا انتباہ کر رہا ہوں کہ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ابھی تو یہ رونا تھا کہ ان سے معیشت نہیں چل پا رہی‘ اب لگتا ہے ملک کا انتظامی نظام بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ معاشی میدان میں پاکستان موجودہ بحرانی صورت حال کی وجہ سے کم از کم تین سال پیچھے چلا گیا ہے جس کے اثرات آئندہ دس سال تک چل سکتے ہیں اور اگر ہم نے سیاسی بے اعتدالیاں جاری رکھیں‘ تو پھر پیچھے جانا تو ایک طرف ہمارے لئے اپنے وجود کو باقی رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بعض لوگ اسے انٹرنیشنل ایجنڈے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس ساری افراتفری ‘ انتشار‘ طوائف الملوکی کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ دشمن کے ارادے کچھ بھی ہوں‘مجھے یقین ہے مرے رب کے ارادے یہ نہیں ہیں۔ اور اس حوالے سے اگر آپ کو عقل و دلائل بھی درکار ہوں تو حاضر کئے جا سکتے ہیں۔ بس سیاسی بے اعتدالیاں بند کیجئے۔ اس میں آپ کی نجات ہے‘ ہماری نجات ہے‘ اس ملک کی نجات ہے۔ سجاد میر