ایک کالم نگار کے ذمے بھی کیا کام لگا ہے کہ ہر وقت ظلم ناانصافی پر ماتم کرتا رہے معاشرے میں موجود عدم مساوات‘ بھوک ننگ‘ غربت اور جہالت پر واویلا مچاتا رہے۔ حکومتوں کے غلط‘ ویژن سے عاری‘ عوامی دشمن پالیسیوں کو بے نقاب کرے‘ اپنے قلم سے حق اور سچ کا ساتھ دینے کی مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ وقتی طور پر دل کی بھڑاس نکل گئی۔ اپنے غصے کا کتھارسس ہو گیا۔ کیا معاشرے پر‘ حکومتوں پر اہل اقتدار اور اہل اختیار پر اس کا کہیں کوئی اثر ہوتا ہے؟ خبریں بنتی ہیں‘ سرخیاں چیخ اٹھتی ہیں۔ بریکنگ نیوز کا ہتھوڑا بجتا رہتا ہے‘ ٹاک شوز میں ہنگام برپا ہوتا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔! سانحہ ساہیوال سب کے سامنے ہے ظلم‘ بربریت اور لاقانونیت کا اندھا کھیل کھیلا گیا۔ پوری قوم اس پر سراپا احتجاج ہو گئی۔ انصاف انصاف کی آوازیں اٹھتی رہیں اور اب جو انصاف بزدار حکومت کرتی نظر آ رہی ہے اس پر سانحے کے متاثرین سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جے آئی ٹی بنے اور وہ اس سانحے کی تحقیقات کرے جبکہ حکومت کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں تحقیقات صحیح سمت میں ہو رہی ہیں۔ شرمیلا‘ خاموش طبع ‘ وزیر اعلیٰ۔ اگلے روز‘ صحافیوں کے ہجوم سے نظریں چراتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ہم تحقیقات سے مطمئن ہیں ابھی جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ سی ٹی ڈی کے آدم خوروں نے دن دیہاڑے جن کے خاندان اجاڑے۔ ان کم نصیبوں کا تحقیقات کے عمل سے مطمئن ہونا ضروری یا آپ کا ؟۔ آپ کا کام یہ ہے کہ ہر ممکن طریقے سے انصاف اور تحقیقات کے لئے وہ راستہ منتخب کریں جس سے سانحے کے متاثرین اور پوری پاکستانی قوم مطمئن ہو سکے۔ اہل اختیار یاد رکھیں کہ اگر آپ ظالم اور ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو پھر آپ ظالموں کے ساتھ سمجھے جائیں گے۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے! یوں لگتا ہے کہ گزشتہ 77برسوں میں معاشرے ‘اہل اختیار اور اہل اقتدار نے ظلم اور ظالموں کا ساتھ دیا ہے اسی لئے یہاں قانون محض بے جان دستاویز سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر قانون شقوں اور آرٹیکلز سے باہر نکل کر اس معاشرے میں ہر طاقتور اور کمزور پر بلا امتیاز نافذ ہوتا تو یہاں ادارے مضبوط ہوتے‘ یہاں لوگ دوسروں کا نوالہ چھیننے سے قبل اپنے انجام کو تصور میں لاتے۔ لیکن یہ ریاست پاکستان ہے جہاں رشوت‘ سفارش اثر و رسوخ ‘ دھونس ‘ دھاندلی ‘ سب کچھ چلتا ہے صرف انصاف ہے جو یہاں کچلااور روندا جاتا ہے۔ظلم ایسی ایسی ہوشربا اور ہولناک صورتوں میں ہمارے معاشرے میں موجود ہے کہ الاماں الحفیظ۔! گھریلو ملازمہ عظمیٰ کے ساتھ ہونے والا ظلم‘ اس معاشرے میں بننے والے افراد کی وحشیانہ اور تاریک ذہنیت کی بدترین مثال ہے بظاہر نارمل دکھائی دینے والے پڑھے لکھے گھرانوں میں‘ گھریلو ملازمین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے ایک سیشن جج کی بیوی نے بھی اپنے گھر کام کرنے والی بچی کے ساتھ بدترین ظلم کیا۔ بات عدالت تک گئی‘ بچی کو زمرد خان سویٹ ہوم لے گئے۔ ٹی وی‘ اخبارات سوشل میڈیا ہر جگہ خوب شور مچتا رہا۔ سیشن جج کی بیوی بھی منہ چھپا کر عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی۔ سزا ہوئی اور پھر ضمانت پر رہائی بھی۔ یہاں قانون کی سکت ہی اتنی ہے کہ سماجی اثرورسوخ رکھنے والے کے پائوں چاٹتا رہے اگر ایسے کیسوں میں عبرت ناک سزا ہوتی تو کبھی غریب‘ بچیوں پر ظلم کے واقعات دھرائے نہ جاتے۔ 16سالہ گھریلو ملازمہ عظمیٰ پر چھ مہینے اس کی مالک وحشیانہ تشدد کرتی رہی۔ غریب گھر کی عظمیٰ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے شہر کے ایک خوشحال گھر میں کام کرنے کے لئے آئی تواس سے چند نوالوں کے عوض انسانیت سوز سلوک کیا جاتا۔ اور بھوکا رکھا جاتا‘ بجلی کے جھٹکے دیے جاتے اور پھر وہ یہ ظلم سہتے سہتے موت کے منہ میں اتر گئی۔ درندہ صفت عورتوں کی نفسیات پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ آخر ان کے ذہن میں ایسی کیا خباثت تھی جس کی تسکین وہ ایک بے بس لڑکی پر ظلم توڑ کر کرتی رہیں۔ آج ہر طرف جسٹس فار عظمیٰ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن بے چاری عظمیٰ کے ساتھ کیا انصاف ہو گا وہ تو بدترین ظلم کا نشانہ بنا کر قتل کر دی گئی۔ ہاں وحشیانہ ظلم ڈھانے والیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ سزا ایسی ہو کہ خوشحال گھروں میں چند نوالوں اور چند روپوں کے عوض ذلت سہنے والی جتنی بھی عظمائیں ہیں وہ محفوظ رہیں۔کالم کا اختتام فیض کی اس لازوال پنجابی نظم پر جو اس وقت میرے احساس کو زبان دے رہی ہے!یہ نظم ریاست پاکستان کے پسے ہوئے ‘ کچلے طبقے کے نام جو ظلم میں اپنی زندگیاں گزارتے ہوئے اپنے ربّ سے سوال کرتے ہیں۔ رباّ سچیاتوں تے آکھیا سی جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ایں توں ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں ساڈا نیب تے عالی جاہ اے توں ایس لارتے ٹور کد پچھیا ای کہیہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں کدی سار وی لئی او رب سائیاں تیرے شاہ نال جگ کہیہ کیتیاں نیں کِتے دھونس دُھتکار سرکار دی اے کتے دھاندلی مار پٹوار دی اے اینویں ہڈاں اچ کلپے جاں میری جیویں پھاہی اچ کونچ کُرلائوندی اے چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں پوے کھائو ندیاں وار نئیں آئوندی اے ربا سچیاں توں تے آکھیا سی!